بی ایل اے کا آپریشن ھیروف اور فیصلہ کن جنگ
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بیسویں صدی دنیا میں انقلابات اور انسرجنسی کی صدی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس صدی میں دنیا کے کئی ممالک نو آبادیات کے خلاف طویل جنگوں کے بعد آزاد ممالک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے۔ یہ طویل جنگیں سیاسی اور مسلح محاذ پر لڑی گئی لیکن جنگ سیاست کا جز ہونے کے باوجود سیاست سے زیادہ موثر ہتھیار کے طور پر خود کو منوانے میں کامیاب رہا ہے، کیونکہ ریاستی تشدد کو ختم کرنے کا ذریعہ جوابی تشدد ہے۔
الجزائر کی تحریک آزادی ہو یا مشرقی تیمور، چین اور ویتنام کی جنگ آزادی ہوں، وہاں سیاسی راستے کو ہموار کرنے میں فیصلہ کن جنگی معرکوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ الجزائر کی تحریک آزادی میں کچھ ایسے معرکے جنگجووں نے سر انجام دئیے جو تحریک آزادی میں فیصلہ کن جنگ کی راہیں ہموار کرتے چلے گئے۔ انہیں معرکوں نے نیشنل لبریشن فرنٹ کی طاقت اور عوامی حمایت میں اضافہ اور فرانس کی فوج کو نفسیاتی شکست ؤ فوجی حوالے سے بھی کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نیشنل لبریشن فرنٹ، کردستان ورکرز پارٹی، فریٹیلین کی مسلح تنظیم فالینتل اور ویتنام کی جنگ آزادی میں مسلح تنظیموں نے فیصلہ کن جنگ کے لئے کچھ معرکے سر انجام دئیے جو مستقبل میں ان تحریکوں کی کامیابیوں کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔
معرکہ قسطنطنیہ الجزائر میں 1959 کو نیشنل لبریشن فرنٹ نے سر انجام دی، اس معرکے کا مقصد تنظیمی طاقت کا اظہار اور فرانسیسی فوج پر دباؤ بڑھا کر اسکے کمزور کرنا تھا۔ جس کے خلاف فرانس کی فوج نے بھرپور رد عمل دیا اور جنگ نتیجے میں دونوں جانب بے پناہ نقصانات ہوئے لیکن ایک غلام قوم نے اپنے فرزندوں کی قربانی کی بدولت فرانس کی طاقتور فوج پر دباؤ ڈال کر نہ صرف ان کی عسکری طاقت میں اضافہ کیا بلکہ فرانس کو معاہدہ ایوین پر مجبور کیا، جو الجزائر کی آزادی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
فرانس اور الجزائر کے درمیان کئی ایسے معرکے ہوئے جو نیشنل لبریشن فرنٹ کی طاقت کا اظہار تھے اور فرانسیسی نو آبادیاتی نظام کے خلاف افتادگان خاک کی نفرت کا اظہار تھے۔ ان معرکوں میں خراطہ اور بٹنہ کے معرکے بھی نہایت اہم ہیں۔
ویتنام کی جنگ آزادی ایک مثال ہے جہاں دو سپر پاور طاقتوروں کو مظلوم قوم نے عبرتناک شکست دی اور تاریخ ویتنامیوں کے بہادرانہ جدوجہد آج بھی یاد کرتی ہے اور آج دنیا کے نقشے پر وہ آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔
ویتنام کی جنگ آزادی میں 1954 سے لیکر 1975 تک کئی اہم معرکے ہوئے جن میں بیٹل آف ڈین بین فو جو فرانس کے خلاف لڑی گئی، یہ وہی جنگ ہے جس میں ویت منھ نے فرانسیسی فوج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور ویتنام کے شمالی حصے میں کمیونسٹ حکومت قائم کرائی، جس نے بعد میں ویتنام جنگ کو آگے بڑھایا۔اسی جنگ نے انڈوچائنا میں فرانس کو انخلا پر مجبور کیا۔
1968 میں ویتنامی تنظیم نے دو بڑے معرکے سر انجام دئیے جس نے سپر پاور امریکہ کو سوچنے پر مجبور کیا کہ ویتنام میں جنگ جیتنا کتنا مشکل ہوگا، ان معرکوں میں ایک معرکہ دی ٹٹ آفینسیو تھا جو سیاسی طور پر امریکہ کے لئے نقصان دہ اور تباہ کن ثابت ہوا۔ یہ وہی معرکہ ہے جس نے امریکی عوام کے جذبات جنگ کے خلاف ابھارنے اور امریکہ کو مذاکرات کی میز سجانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اسی سال اِن معرکوں میں جہاں شمالی ویتنامی اور ویت کانگ نے شہروں پر قبضہ کرکے طبل جنگ بجھا دیا تھا، طویل ترین اور خون ریز جنگ نے دونوں جانب لاشوں کے انبار لگادئیے اور ویتنامی آزادی کی طاقت کو عیاں ؤ امریکی فوج اور جنوبی ویتنامی حکومت کی طاقت کو سر بازار رسوا کردیا۔
ایک اور حتمی معرکہ جو 1975 میں دی فالن آف سائگون کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو جنگ کا خاتمہ اور ویتنام میں کیمونسٹ پارٹی کی حکومت کا قیام پر منتج ہوا۔ یہ معرکہ نہ صرف امریکہ کے ماتھے پر کلنک کا دھبہ ہے بلکہ دنیا بھر کے ظالموں کے لئے ایک سبق ہے کہ ریاستی سفاکیت قوموں کو شکست نہیں دے سکتی ۔
آپریشن ھیروف کا آغاز :
آپریشن ھیروف کا آغاز جیوانی گبد کراس سے شروع ہوا، جہاں بی ایل اے کے ایک دستے نے ناکہ بندی کرکے اسنیپ چیکنگ شروع کی اور اس دوران کئی گھنٹے شاہراہ کو مکمل بند کرکے لیویز تھانے پر قبضہ کرلیا، سرمچاروں نے ناکہ بندی کے دوران معدنیات لیجانے والی چار گاڑیوں، دو پولیس وین، اور تھانے کو نذر آتش کرنے کے علاوہ 23 بندوقیں بھی قبضے میں لے لی۔
اسی دورانیہ میں بی ایل اے آفیشل میڈیا کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا، جس کے مطابق بلوچستان بھر میں آپریشن ھیروف کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق بلوچ فدائیوں نے بیلہ کیمپ میں چوبیس فوجیوں کو ہلاک کرکے کیمپ کے ایک حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
یہاں سے آپریشن ھیروف کا آغاز ہوا جس میں نو فدائی شامل تھے،اسکے علاوہ بیس گھنٹے کی کاروائی میں 800 سرمچاروں نے بلوچستان کے 13 اضلاع کے 40 مقامات پر 44 کامیاب حملوں میں 130 فوجی ہلاک اور 55 زخمی کئے۔ اسکے علاوہ گیس پائپ لائن، ریلوے ٹریک، دو پل، 13 معدنیات کی گاڑیاں اور اہم شاہراوں کو بند کرکے اہم کاروائیاں شروع انجام دی۔
آپریشن ھیروف کے شہدا:
آپریشن ہیروف میں کل 800 سرمچاروں نے حصہ لیا جن میں نو فدائی شامل تھے ان کے علاوہ فتح اسکواڈ کا ایک سرمچار بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبت پر فائز ہوا۔ شہدا کی تفصیل درج ذیل ہیں۔
آپریشن کمانڈر بیلہ کیمپ غوث بخش سمالانی، ماحل بلوچ، رضوان بلوچ، طیب بلوچ، آصف نیچاری، جنید زہری، محمد بخش، فضل گل زہری، محمد بلوچ اور فتح اسکواڈ کے سنگت شفقت شامل ہیں۔
آپریشن ھیروف بلوچ سرزمین کو دوبارہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت دلانے کی پہلی کوشش تھی جو بیس گھنٹہ جاری رہی، اس آپریشن کے اثرات کئی سالوں تک پاکستانی ذہنیت پر اثر انداز ہوتے رہیں گے اور بلوچ قوم کو یہ باور کراتے رہیں گے کہ بلوچستان کے قومی آزادی کی جنگ میں قومی تنظیمیں ہی بلوچ قوم کی اصل وارث اور محافظ ہیں۔
آپریشن ھیروف کے اثرات درج ذیل ہیں۔
طاقت کا اظہار:
آپریشن ھیروف بی ایل اے کی طاقت کا مکمل اظہار تھا، جس نے 20 گھنٹے پاکستانی فوجی کیمپ کے اندر قبضہ جمانے کے علاوہ کئی گھنٹے اہم شاہراوں کو بند کرکے کامیاب حملے کئے، مختلف گاڑیوں سے فوجی اہلکاروں کو اتار کر قتل کرنا، فورسز کی گاڑیوں اور تھانوں کو نذر آتش کرنا، عسکری اہداف کو نشانہ بنانا اور پاکستان فوج کو پسپائی پر مجبور کرنا مکمل طاقت کا اظہار تھا۔ آپریشن ھیروف بلوچستان میں پاکستانی فوج کی نام نہاد رٹ کے خاتمے کا اعلان تھا
بی ایل اے نے مربوط و منظم حکمت عملی اور عمل سے ثابت کیا ہے کہ بی ایل اے کی طاقت عوامی طاقت ہے اور مستقبل میں یہ طاقت مزید شدت کے ساتھ بلوچستان میں آزاد ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے پاکستان کے اقتصادی اور عسکری اہداف کا نشانہ بنائے گا۔
جنگ کو برقرار رکھنا:
آپریشن ھیروف اظہار تھا مکمل جنگی منصوبہ بندی کا، جس نے بارہ گھنٹے لاکھوں فوجیوں کی موجودگی میں بلوچستان کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھا اور پاکستان کو معاشی اور عسکری نقصانات سے دوچار کیا۔ بیلہ آرمی کیمپ میں بیس گھنٹے تک قبضہ برقرار رکھا اور دنیا کو پیغام دیا کہ بلوچستان کے فرزند و دختر نامناسب حالات اور قلیل وسائل کے باوجود ایک پروفیشنل فوج کو عبرتناک شکست سے دو چار کرسکتے ہیں اور اپنے وطن کے دفاع میں ہر طرح کے قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔
معاشی نقصانات۔
آپریشن ھیروف میں بی ایل اے نے ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ قدرتی معدنیات لیجانے والی درجنوں گاڑیوں کو نذر آتش کیا، گیس پائپ لائن جو پنجاب اور کراچی کے صنعتوں کو چلاتی ہے انہیں تباہ کرکے پاکستانی معشیت کو نقصان سے دوچار کیا ہے، آمدورفت کے اہم شاہراہوں پر دو پُل بھی تباہ کئے گئے جن کی تعمیر میں کئی مہینے درکار ہونگے۔
پاکستان کی نفسیاتی شکست:
آپریشن ھیروف کی کامیابی نے پاکستانی کو شدید نفسیاتی شکست سے دو چار کیا ہے، ان کی سامراجی اور تعصبی ذہنیت حیران و پریشان ہے، جو ہمیشہ کہتے ہیں کہ چند لوگ ہیں جو بلوچستان میں افراتفری پیدا کررہے ہیں لیکن آپریشن ھیروف کی کامیابی نے انہیں سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ بلوچ قومی تنظیموں کی اہلیت و صلاحیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ بلوچ سر زمین پر ایک باقاعدہ بڑی جنگ کا آغاز کرسکتے ہیں۔
فوجیوں کو عام مزدور دکھانا، میڈیا میں انسانی حقوق کے رہنماوں پر پروپگینڈہ کرنا، فوجی جنازوں میں کور کمانڈر کی شرکت، وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس میں ایک ایس ایچ او کی مار کا بیان، وزیر اعظم پاکستان کے فوری 20 ارب فراہم کرکے عزم استحکام شروع کرنے کا اعلان اور دیگر وسائل فوری فراہم کرنے کا اعلان آپریشن ھیروف کی کامیابی اور پاکستانی نفسیاتی شکست کا مکمل اظہار ہیں۔
آپریشن ھیروف اور عالمی پذیرائی:
آپریشن ھیروف کو دنیا بھر کے اخبارات ؤ میڈیا نے کور کیا ہے اور دنیا کے اہم ممالک جن میں امریکہ، روس اور چین کے علاوہ اقوام متحدہ نے مذمت کی ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ پہلی بار بلوچ کی آواز عالمی دنیا کے سماعت پر گراں گزری ہے، قطع نظر کہ انہوں نے بلوچ کی انسرجنسی کو دہشت گردی سے منسوب کرکے مذمت ہے لیکن بلوچ قوم کی آواز دنیا کے طاقتور قوتوں تک پہنچ چکی ہے کہ بلوچ کسی صورت بھی اپنے زمین اور آزادی کی جہد سے دستبردار نہیں ہونگے۔
آپریشن ھیروف کے اہم مقاصد مکمل ہوگئے ہیں اور اس آپریشن کا اگلا مرحلہ اِس بھی زیادہ شدید اور خطرناک ہوگا جو یہ ثابت کرے گا کہ بلوچ اپنی جنگ اپنے زور بازو سے منزل کے حصول تک لڑتے رہیں گے۔
اختتامیہ۔
آپریشن ھیروف بلوچ زمین کو دوبارہ آزاد کرنے کی کوششوں کا پہلا سلسلہ تھا، جو بی ایل اے کی طاقت کا اظہار تھا۔ جس میں تنظیم سو فیصد کامیاب ہوئی، بی ایل اے کے جدت پسندانہ حملوں سے مستقبل میں بلوچستان ایک مکمل جنگ کی لپیٹ میں ہوگا۔
اس جنگ کی جدت اور شدت بلوچ قوم کو کامیابی سے ہمکنار کرے گا کیونکہ انسرجنیسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ قومی جنگوں میں تنظیموں اور پارٹیوں کو عوام کی مدد حاصل ہوتی ہے اور عوام اس حبس زدہ ماحول سے نکلنے کے لئے اپنے مسلح تنظیموں کی حمایت کے لئے اور فیصلہ کن جنگ کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ قوم جانتی ہے یہ جنگ ہماری بقاء کی جنگ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔