بیلہ حملہ: مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟

908

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی رپورٹر کے مطابق بلوچستان کی تحصیل بیلہ کے رہائشی 21 سالہ سہیل (فرضی نام) سوموار کی رات گھر کے قریب ایک دکان سے کچھ سامان خریدنے گئے تھے۔ ابھی وہ دکان میں ہی تھے کہ ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ کچھ ہی لمحوں میں دوسرا دھماکہ ہوا۔

دھماکے کی آواز اتنی زوردار تھی کہ کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی اور پھر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ رات سہیل نے اسی دکان کا شٹر ڈاؤن کر کے وہاں گزاری تھی۔ ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ اس قدر سکتے میں تھے کہ اگلے 24 گھنٹے وہ کسی سے بات نہیں کر سکے ۔

یہ دھماکے رواں ہفتے 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب بیلہ بازار سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر اسی دکان کے قریب ایف سی کے کیمپ اور سابق ہیڈکوارٹر کے گیٹ پر ہوئے تھے۔

ضلع لسبیلہ کی تحصیل بیلہ میں ہونے والا یہ حملہ ایسا تھا جس نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چونکا دیا بلکہ یہاں کی مقامی آبادی میں بھی شدید خوف پھیل گیا۔

تاہم بیلہ میں ایف سی کے اس کیمپ پر ہونے والے حملے سے متعلق معلومات انتہائی محدود تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس واقعے کے گرد خاصی رازاداری رکھی جا رہی ہے۔
لسبیلہ میں اس رات کیا ہوا، یہ جاننے کے لیے بی بی سی اردو بلوچستان کی اس تحصیل پہنچے جہاں خودکش دھماکے اور ایک بڑی فوجی کارروائی کی گئی۔

ایف سی کا یہ کیمپ بیلہ کے مرکزی بازار سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک کچی سڑک پر واقع ہے۔ جب بی بی سی ٹیم یہاں پہنچے تو گیٹ اور بیرونی دیوار مکمل طور پر تباہ تھی اور یہاں مزدور مرمت کا کام کر رہے تھے۔

ایف سی کیمپ کے اس گیٹ کے بالکل سامنے، سڑک کی دوسری طرف، بیلہ کے بوائز ڈگری کالج کا داخلی دروازہ ہے۔ کالج کی عمارت کے اندر رہائشی کمرے اور گھر بھی ہیں جہاں حملے کے وقت کالج کے پرنسپل سمیت سکیورٹی گارڈز، چند اساتذہ اور ان کے اہلخانہ موجود تھے۔

کالج کے عملے میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس رات حملے اور پھر فوجی کارروائی کے بارے میں بتایا:

’ایک دم زور کا دھماکہ ہوا اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر گِر گئے۔ میں نے آج تک اتنی اونچی آواز نہیں سنی تھی۔ کچھ لمحوں تک میرے کان جیسے پھٹ گئے تھے۔ ابھی یہ سمجھ نہیں آئی تھی کہ ایک اور زوردار دھماکہ ہوا۔ مجھے لگا یہ دھماکے ہمارے کالج میں ہو رہے ہیں اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہمارے اوپر سے گولیاں گزر رہی تھیں۔ کھڑکیاں، دروازے، شیشے اور چھت کی سیلنگ سب ٹوٹ کر ہمارے اوپر بکھرے ہوئے تھے۔ میں زمین پر سیدھا لیٹا رہا۔‘
ان کے مطابق وہ ساری رات فائرنگ کی آوازیں سنتے رہے اور ان کے جسم میں حرکت کی ہمت نہیں تھی۔
’مجھے زندہ باہر نکلنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہی میرا آخری وقت ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے بیوی بچوں کو میری لاش کس حالت میں ملے گی۔ مجھے یقین تھا کہ صبح ہونے سے پہلے مجھے کوئی گولی، کوئی راکٹ لگ جائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ صبح دس بجے کے قریب پولیس اہلکار کالج کی عمارت میں داخل ہوئے اور ان سمیت کالج کے دیگر عملے اور اساتذہ کے اہلخانہ کو وہاں سے نکالا گیا۔

خودکش حملہ آور کے زیراستعمال گاڑی کا کچھ حصہ ڈگری کالج کے ٹوٹے ہوئے گیٹ کے پاس اب بھی پڑا تھا۔
کالج کے سامنے ایف سی کیمپ کے باہر کی دیوار اور گیٹ بھی تباہ ہو گیا جبکہ کیمپ کے اندر دور تک تباہی کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں فی الحال میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں جبکہ کیمپ کی بیرونی دیوار کی دوبارہ تعمیر کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔