دھرنے ریاستی کریک ڈاؤن، شرکاء کی گرفتاریوں اور حکومت کی جانب سے مذاکرات میں غیر سنجیدگی کے خلاف دیئے جارہے ہیں۔
صوبائی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی آڑ میں کارکنوں پر گرفتاریوں اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے بی وائی سی گزشتہ نو دنوں سے دھرنا دے رہی ہے۔ نوشکی، گوادر، تربت اور کوئٹہ میں درجنوں خواتین، مرد اور بچے احتجاجی مظاہروں میں شریک ہیں۔
نوشکی میں مظاہرین پر فائرنگ اور قتل کے خلاف بی وائی سی دھرنے کی حمایت کرتے ہوئے آل پارٹیز نوشکی کے رہنماؤں نے دھرنے میں شرکت کی-
نوشکی دھرنے کے مقام سے بیان جاری کرتے ہوئے آل پارٹیز نوشکی کے رہنماؤں نے ریلی کے شرکاء پر فائرنگ میں ملوث ایف سی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے، لاپتہ افراد کی بازیابی اور کسی بھی ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا پرامن احتجاج آئینی حق ہے اور ریاست کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں کو دبانا قابل مذمت ہے۔
آل پارٹیز نوشکی کے رہنماؤں نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو اجاگر کیا کہ بلوچستان بھر سے ہزاروں افراد کو برسوں سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے، انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی ادارے کو عدالتوں کو نظر انداز کرنے اور لوگوں کو خفیہ حراستوں اور تشدد کا نشانہ بنانے کا اختیار نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں نوشکی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ایک پرامن ریلی کے دوران پاکستانی فورسز نے بلا اشتعال فائرنگ کرتے ہوئے نوجوان حمدان بادینی کو قتل کردیا تھا جبکہ دو مظاہرین زخمی ہوگئے تھیں جس کے خلاف بی وائی سی نے گذشتہ چار دنوں سے قومی شاہراہ کو بلاک کر رکھا ہے-
نوشکی مظاہرین فائرنگ کے واقعہ ملوث ایف سی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور بی وائی سی کے ارکان کے خلاف انتقامی ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں-
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کا دوسرا دھرنا کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے جاری ہے جہاں مظاہرین اپنے مطالبات پرامن طریقے سے پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اسی طرح ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں شہید فدا چوک پر احتجاجی دھرنا آج آٹھویں روز جاری ہے جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہیں۔
تربت میں انٹرنیٹ سروس گذشتہ ایک ہفتے سے معطل کردی گئی ہے۔
دریں اثناء ساحلی شہر گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مرکزی دھرنا آج نویں روز میں داخل ہوگیا ہے جہاں درجنوں شہری اس وقت دھرنے میں شریک ہیں-
دھرنوں کے حوالے سے گذشتہ روز پریس کانفرنس میں بی وائی سی کے رہنماؤں نے کہا کہ گوادر میں بلوچ راج مچی کا مرکزی دھرنا جاری ہے۔ انہوں نے ریاست پر مذاکرات میں بے حسی اور بلوچستان بھر میں طاقت کے استعمال، مکران کو سیل کرنے، اور لاکھوں لوگوں کو بھوک اور ہتھیاروں سے مارنے کی منصوبہ بندی کا بتایا۔
انہوں نے کہا ریاست کی جانب سے مظاہرین کو مذاکرات کے نام پر مسلسل دھمکیاں اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اگر ریاست مذاکرات میں خلوص کا مظاہرہ کرتی ہے تو وہ اپنا احتجاجی دھرنے اور ہڑتالیں ختم کر دیں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی مذاکرات صرف گوادر مرکزی دھرنے پر ہوں گے۔