بلوچ گیارہ اگست کو حاصل کی گئی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکنے کے وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی جدوجہد کی قوت اور کمزوریوں کا تجزیہ کرے۔این ڈی پی

104

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے ’’گیارہ اگست ( سلب شدہ) آزادی کے دن کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ اگست بلوچ قومی تاریخ میں ایک اہم اور تاریخی دن ہے جس کے تجزئے سے بلوچ قومی تحریک کے حال اور مستقبل کے سمت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ آج سے ستتر سال قبل اسی دن بلوچوں کی مرکزی ریاست قلات کے آزادی کا اعلان کیا گیا تھا اور ریاست کے انتظامی امور کو چلانے والے ایوان بالا اور ایوان زیریں کی تشکیل اس سے قبل ہی دی گئی تھی مگر ایوانوں کی یہ تشکیل خودمختاری کی حفاظت نا کر سکی اور ریاست قلات کی آزادی کی حیثیت ستائیس مارچ انیس اڑتالیس کو سلب کر دی گئی۔ مگر سلب کئے گئے اس دن کی تاریخی اہمیت بلوچ قومی جدوجہد کا ایک روشن باب ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دن بلوچ قوم پرستی کے جزبے اور بلوچ بقا کے جدوجہدکی علامت ہے جو صدیوں پر محیط ہے اور آج بھی بلوچ قومی بقا کے لئے اسی جزبے سے سرشار بلوچ فرزندان کی بلوچ سر زمین پر بلوچ حق حاکمیت کی جدوجہد جاری ہے۔
بلوچستان اپنی جیو اسٹریٹجک اہمیت کی بدولت صدیوں سے عالمی سامراجوں کے استعماری عزائم کے نشانے پر رہا ہے مگر ہر دور میں بلوچوں نے اس سرزمین کی حفاظت کی ہے۔ انگریز سامراج نےنوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت ڈیورینڈ لائن اور گولڈ اسمتھ لائن کھینچ کر ایک حصہ افغانستان اور دوسرا حصہ ایران کے سپرد کر کے بلوچستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور مختلف سازشوں کے زریعے یہاں حکومت کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا مگر بالآخر مجبوراَ خان آف قلات سے معاہدہ کر کے ریاست قلات کی آزاد و خودمختار حیثیت کو تسلیم کر کے ریاست قلات کی آزادی کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کا دوغلا پن اس وقت آشکار ہوا جب کچھ مہینے بعد سے ہی محمد علی جناح نے ریاست قلات کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی اور قلات کے زیر دست ریاستوں کو مرکز کے برخلاف کھڑا کر نے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں سے خان آف قلات پر دباؤ بڑھائے رکھا اور اس تمام مرحلوں میں برطانوی حکومت خاموش رہی جس کا نتیجہ فوج کشی کے زریعے بلوچستان کو جبری طور پر موجودہ ریاست میں شامل کر لیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ ۱۱ اگست انیس اڑتالیس بلوچ قومی جدوجہد میں ایک روشن باب اور کامیابی کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس تاریخی کامیابی کو برقرار نہ رکھ پانے کے پیچھے عوامل کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔ آج سلب شدہ آزادی کا دن منانے کا مقصد ان داخلی ،خارجی ، سیاسی ، سفارتی، انتظامی ، عسکری، عوامی شعور سمیت قیادت کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو تجزیہ کرناہے جنہیں مد نظر رکھ کر بلوچ قومی تحریک کے حال اور مستقبل کی راہوں اور سمتوں کا تعین ہو سکے۔ یہ دن ہی ہمیں یاد دلاتا ہے قوموں کی شناخت، تحفظ ثقافت، حق حاکمیت ، حق خوداریت، قومی بقا اور آزادی کی جدوجہد ایک طویل اور مشکل عمل ہے جس میں قومی شعور، یکجہتی اور مستحکم قیادت لازمی جز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سلب کئے گئے اس دن کے اثرات بلوچوں کے دلوں میں نقوش ہیں اور بلوچ قومی حقوق کی جدوجہد آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہےگی جب تک بلوچوں کی جدوجہد منزل مقصود تک نا پہنچ پائے۔