بلوچ راجی مچی: کب، کیا؟ ۔ دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

932

بلوچ راجی مچی: کب، کیا؟

دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

تحریر: آصف بلوچ | زامران بلوچ

ایک ضعیف العمر شخص، ہاتھ میں عصا لیئے اس عوامی سمندر کے بیچ پرجوش طریقے سے اپنی موجودگی کا اظہار کررہا ہے جبکہ ایک نومولاد بچی، جس کو ماں گود میں لیئے، عوامی مظاہرے میں شریک ہے، یہ دو ایسے مناظر ہیں، جنہیں کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا ہے، حالیہ کچھ دنوں سے ایسےسینکڑوں پرجوش مناظر ہم دیکھ چکے ہیں، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ ان تصاویر میں مقام اور منظر الگ الگ ہیں مگر مقاصد تمام لوگوں کا ایک ہی ہے کہ کسی بھی طرح “بلوچ راجی مچی” میں شامل ہوسکیں۔ یہ راجی مچی کیا ہے اور بلوچ کیوں اسکے بارے اس حد تک پرجوش ہیں کہ جان کی بھی پرواہ نہیں کررہے؟ یہی ہم سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

بلوچ راجی مچی کیا ہے؟

بلوچ راجی مچی یوں تو ایک عوامی جلسہ تھا، جو 28 جولائی کو بلوچستان کے ساحلی شہر اور چین پاکستان معاشی مفادات کے مرکز گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقد ہونا تھا، جس میں مغربی اور مشرقی بلوچستان کے لوگوں کو شامل ہوکر بلوچوں پر ہونے والے ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ راجی مچی سے ایک ماہ قبل بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ نے26 جون کو ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے راجی مچی کی تاریخ اور جگہ کا اعلان کیا تھا۔

بلوچ راجی مچی کے مقاصد کے حوالے سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنی ویڈیو میں کہا تھا کہ “بلوچ راجی مچی، پاکستان کے انسانیت سوز ٹارچر سیلوں میں بند ہمارے نوجوانوں کی بازیابی کے لیئے ہے، بلوچ راجی مچی پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہمارے ہزاروں لوگوں کو انصاف دلانے کی ایک جدوجہد کا آغاز ہے۔ بلوچ راجی مچی زامران سے لے کر ماشکیل تک ہمارے ڈرائیوروں کے حقوق کے لیئے ہے، بلوچ راجی مچی بلوچ ماہی گیروں کے معاشی حقوق کے لیئے ہے، بلوچ راجی مچی نصیر آباد کے بلوچ کسانوں کے لیے ہے، بلوچ راجی کراچی میں ہزاروں بلوچوں کے قتل کے خلاف ایک تحریک ہے، بلوچ راجی مچی ڈی جی خان میں دانستہ پھیلائے گئے کینسر کے خلاف ایک جنگ ہے، بلوچ راجی مچی مغربی بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کو پھانسی پر لٹکانے کے خلاف ایک آواز ہے، بلوچ راجی مچی بولان کے سرمئی پہاڑوں سے لے کر مکران دشت کے میدانوں تک بلوچوں کے لیے ایک امید ہے۔ بلوچ راجی مچی بلوچوں کی کمزور حیثیت کو وقت کے جابر اور ظالم کے خلاف ایک طاقت اور قوت میں بدلنے کے لئے ایک عوامی جدوجہد کا آغاز ہے”۔

بلوچ راجی مچی کی جھلکیاں:

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ نے26 جون کو راجی مچی کی تاریخ اور جگہ کاا علان کیا تھا اور بلوچستان بھر میں راجی مچی کی تیاری شروع ہوگئیں تھیں۔ کارنر میٹنگز، مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے مجالس اور دیگر پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جہاں بلوچستان بھر میں بلوچ راجی مچی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں، وہیں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی طرف سے بلوچستان بھر میں جاری بلوچ راجی مچی کی تیاریوں میں رکاوٹیں ڈالنے کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

مختلف علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹے گئے۔ راجی مچی کی تیاریوں اور چندہ مہم کے دوران بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں چندہ مہم پر پابندی کے علاوہ گرفتاریاں کی گئیں۔ خضدار میں بی وائی سی کے خواتین کارکنوں کو چاکنگ کے دوران ایف سی نے یرغمال بنا کر گرفتار کرنے کی کوشش کی تاہم عوامی مداخلت پر وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ جبکہ کراچی، کوئٹہ ، ڈیرہ غازی خان سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تیاریوں میں شامل افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔

ستائیس جولائی کی صبح بلوچستان بھر سے راجی مچی کے شرکاء قافلوں کی صورت میں اپنے اپنے علاقوں سے نکلنے تھے۔ وہیں فورسز نے راجی مچی کے قافلوں کو روکنے کے لئے شاہراؤں پر رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردی۔ نوشکی کے راجی قافلے کو اے ایس پی پولیس کی سربراہی میں روکا گیا جبکہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں لکھ پاس اور سونا خان تھانے کی حدود میں کنٹینر لگا کر شاہراہ کو مکمل بلاک کیا گیا اور آمدورفت کے لئے بند کیا گیا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد جب کوئٹہ سے راجی مچی کے لیے نکلے، انہیں دیگر وکلا کے ہمراہ ہزار گنجی کے مقام پر روکا گیا۔ کراچی سے نکلنے والی قافلوں کو روکنے کے لئے راجی مچی کے شرکاء کو کراچی یوسف گوٹھ ٹرمینل کے مقام پر روکا گیا۔ کوئٹہ، ڈیرہ غازی خان، بارکھان ، کوہلو اور گردونواح کے قافلے شدید مزاحمت کے بعد کوئٹہ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم انہیں مستونگ پہنچتے ہی فورسز نے گھیرے میں لے کر روک دیا ا اور اُن پر براہ راست اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ جس میں چودہ افراد زخمی ہوگئے، فائرنگ اور شرکاء کے زخمی ہونے کے بعد کوئٹہ، نوشکی، کوہلو اور ڈیرہ غازی خان کے قافلوں نے مستونگ میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔

کراچی کے قافلے کو پورے دن حب اور اوتھل کے مقام پر روکا گیا، جبکہ قافلے کے باقی شرکاء کراچی یوسف گوٹھ میں دھرنا دےکر بیٹھے رہے۔ جنہیں شام گئے جانے کی اجازت دی گئی اور اسی دوران اوتھل اور حب چوکی میں پھنسے قافلے مزاحمت کے بعد گوادر کے طرف نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

خاران، دالبندین اور خضدار کے قافلے بغیر کسی رکاوٹ پنجگور پہنچنے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس وقت مکران سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کردئے گئے تھے۔ دالبندین، خاران اور خضدار کے قافلوں کے ساتھ پنجگور کے قافلے بھی شامل ہوئے جنہیں پہلے پنجگور اور کیچ کے درمیان بالگتر میں روک دیا گیا، جہاں مزاحمت کے بعد جب کامیابی سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، تو انہیں بعد میں تلار کے مقام پر روک دیا گیا۔

اٹھائیس جولائی کی شام کو گوادر پدی زر کے مقام پر جلسہ ہونا تھا تاہم بلوچستان آئے ہوئے تمام قافلوں کو گوادر میں داخل ہونے سے تلار (تلار، کیچ اور گودار کے درمیان پہاڑی سلسلے کو کاٹ کر بنایا گیا راستہ ہے) کے مقام پرروک دیا گیا، جبکہ کراچی سے نکلے ہوئے قافلوں کو کنڈ ملیر کے مقام پر روکا گیا، انکی گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کیئے گئے، شرکا پر براہ راست فائرنگ کھول دی گئی۔ شرکا دن بھر مذکورہ مقامات پر گوادر جانے کے لئے مزاحمت کرتے رہے تاہم وہ گوادر جانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، فورسز ان پر براہ راست فائرنگ کررہے تھے جبکہ وقتا فوقتا ان پر ڈنڈوں کی برسات ہورہی تھی۔ جبکہ تلار کے مقام پر فورسز کی فائرنگ سے ایک شخص جانبحق ہوگیا۔

اٹھائیس جولائی کو جہاں بلوچستان کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کو گوادر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، وہیں گوادر شہر مکمل فوج کے محاصرے میں تھا لیکن ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگ جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی گھروں سے نکل کر پدی زر کی طرف مارچ کرنے لگے، راستوں میں فوج کے مسلح اہلکار عوامی سیلاب کو روکنے میں بے بس تھے۔ سید ہاشمی چوک پر فورسز نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ کی، جس کے دوران ایک شخص جانبحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ جبکہ شام کے وقت اجتماع کا انعقاد کیا گیا، جہاں سمی دین بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور صبغت اللہ بلوچ نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی جبر اور کریک ڈاؤن کے خلاف راجی مچی کو ایک دھرنے میں بدل دیا۔

انتیس جولائی کی صبح ہوتے ہوتے، بلوچستان کو مظاہروں اور دھرنوں نےاپنے لپیٹ میں لے لیا تھا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دے رہے تھے۔ تربت اور پنجگور میں سینکڑوں افراد دھرنے میں بیٹھ گئے جبکہ خضدار اور دالبندیں میں ریلیاں نکالی گئیں اور بلوچستان بھر میں مکمل پیہہ جام اور شٹرڈاون ہڑتال کیا گیا۔ جبکہ کوئٹہ ڈیرہ غازی، کوہلو، بارکھان سمیت دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگ اب بھی مستونگ کے مقام پر دھرنا دے رہے تھے۔ جو بعد ازاں اگلے روز کوئٹہ منتقل ہوئے اور کراچی کا قافلہ واپس ہوکر اوتھل کے مقام پر زیروپوائنٹ پر دھرنے پر بیٹھ گیا۔ جبکہ پاکستانی آرمی نے پدی زر میں جاری دھرنے پر دھاوا بول دیا، پاکستانی آرمی اور مظاہرین کے درمیان تصادم کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ بی وائی سی رہنما ڈاکٹر صبیحہ، سمی دین اور صبغت اللہ کو گرفتار کر لیا گیا، شدید عوامی مزاحمت کے بعد وہ بازیاب ہوئے اور راجی مچی میں دوبارہ شامل ہوئے۔ اسی روز صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو گوادر پہنچے جبکہ اُن کے گوادر پہنچتے ہی مظاہرین پر طاقت کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا۔

تیس اور اکتیس جولائی کے دوران بلوچستان بھر میں دھرنے و مظاہرے جاری تھے، کوئٹہ، پنجگور، تربت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ریکارڈ کیئے گئے۔

اگست کی پہلی رات کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شاہراؤں کو بند کردیا گیا تاہم اگلے چند گھنٹوں کے بعد مظاہرین نے مذاکرت کے بعد شاہراہ کو کھول دیا، اگلے دن ایک اگست کو جب خواتین کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے جارہے تھے، تو فورسز نے انہیں پریس کلب کے سامنے سے گرفتار کرلیا۔

دو اگست کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان آرٹس کونسل سے پریس کلب تک ریلی نکالنے کے لئے جمع ہوئے تو پہلے سے موجود پولیس اہلکاروں نے انہیں گرفتار کرلیا، گرفتار ارکان کی رہائی کے لئے لوگوں نے دھرنا دیا۔ رات گئے پولیس نے لاٹھی چارج کرکے انہیں گرفتار کرلیا۔

دو اگست کو دالبندین میں فورسز مظاہرین پر فائرنگ کھول دی، جس میں تین افراد زخمی ہوئے، جبکہ اسی روز یعنی دو اگست کی شام نوشکی میں ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا، پرامن ریلی قلم چوک پر دھرنا دے رہی تھی کہ پاکستانی فورسز نے شرکاء پر فائرنگ کھول دی، جس میں متعدد افراد گولی لگنے سے زخمی ہوئے اور ان میں کئی افراد کو تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن حمدان بلوچ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جانبحق ہو گئے۔

اسلام آباد اور لاہور میں راجی مچی کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف مظاہرہ کئے گئے۔ جبکہ ستائیس جولائی کے بعد مکران مکمل فوجی محاصرے میں رہا اور بلوچستان کے علاقوں سے کٹ چکا تھا۔ بلوچستان میں کاروبار اور نظام زندگی مفلوج ہوچکا تھا۔ حکومت کی جانب سے مکران بھر میں مواصطلاتی نظام کو مکمل بند کیا گیا جس سے مکران کا باہری دنیا سے رابطہ مکمل منقطع ہوگیا جبکہ مکران کوسٹل ہائی وے کی بندش سےگوادر سمیت مکران بھر میں خوراک، ادویات اور پانی کی قلت پیدا ہوگئی، لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے۔

عوامی ردعمل:

ہیومن رائٹس واچ نے بلوچ راجی مچی پر کریک ڈاؤن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “28 جولائی 2024 سے، پاکستانی حکام نے بلوچ قومی اجتماع کے ردعمل میں سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا ہے۔ بلوچ قومی اجتماع نے بلوچستان میں کئی سالوں کے دوران جبری گمشدگیوں کے متعدد واقعات کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔ اس طرح کی “گمشدگی” طویل عرصے سے بلوچستان میں حکومت اور مسلح عسکریت پسندوں کے درمیان تنازع کی ایک خصوصیت رہی ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے حکومت کے پرامن ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے جبری گمشدگیاں بھی کی ہیں۔”

دریں اثنا ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بلوچ راجی مچی کے شرکا پر ریاست کی جانب سے طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “فورسز کی جانب سے گزشتہ روز بلوچ قومی اجتماع کے شرکاء کے خلاف غیر قانونی اور غیر ضروری طاقت کے استعمال پر تشویش ہے۔”

بلوچ نیشنل موومٹ کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے اس حوالے کہا کہ بلوچ قوم گوادر میں “راجی مُچی” کے عنوان سے ایک تاریخی اجتماع کے ذریعے پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہزاروں نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔ گوادر میں ہونے والے اس بڑے اجتماع میں بلوچ عوام نے اپنی آواز اٹھانے کا عزم کیا ہے، جو کسی بھی قوم کا بنیادی انسانی اور قومی حق ہے۔ بلوچ لواحقین پاکستان سے کسی اضافی مراعت یا نامنصفانہ مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے پیاروں کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور پاکستان کے اپنے آئین و قانون کے مطابق انصاف کا تقاضا کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی فوج اور دوسرے عسکری ادارے اس اجتماع کو روکنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہے ہیں۔

راجی مچی کی گونج بیرون ممالک ایوانوں تک سنائی دی جب برطانیہ کے ویسٹ منسٹر ہال میں لیبر پارٹی کے رہنما اور ممبر پارلیمنٹ جان میکڈونل نے کہا ہے کہ بلوچ قومی اجتماع میں پرامن طور پر سفر کرنے والے لوگوں پر پاکستانی سیکورٹی فورسز کے حملے تشویشناک ہیں۔

جبکہ آئرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم فرنٹ لائن ڈیفنڈرز نے گوادر میں بلوچ قومی اجتماع پر پاکستانی فورسز کی جانب سے پرامن مظاہرین پرتشدد اور کریک ڈاؤن پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

اس معاملے پر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس شوکت علی رخشانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جمعرات یکم اگست کو گوادر کے ایک شہری نذیر بلوچ کی آئینی درخواست پر وفاقی اور صوبائی سیکریٹری داخلہ اور متعلقہ کمشنرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا۔

ہیومن راٹس کمیشن آف پاکستان نے اسی حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ تنظیم بلوچستان، خاص طور پر گوادر، مستونگ اور تربت میں پیدا ہونے والی صورتحال پر سخت تشویش کا شکار ہے۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل افسوسناک، شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ بلوچ خواتین و نوجوان گوادر جلسے میں شرکت کرنے کیلئے جا رہے تھے۔ بزور طاقت انہیں روکنے اور بے گناہ نوجوانوں کا خون بہانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچ اور مظلوم اقوام سے احتجاج کا حق بھی چھین لیا جائے۔

بلوچستان بار کونسل نےبلوچ یکجہتی کمیٹی کے گوادر میں پر امن سیاسی احتجاج کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہو ئے کہا کہ جلسہ و جلوس کرنا ہر ایک کا جمہو ری حق ہے، جمہوری اور پر امن احتجاج آئین و قانون کا احترام کر تے ہوئے اس میں رکا وٹیں ڈالنے کا سلسلہ بند کیا جا ئے۔

پشتون تحفظ مومنٹ کے بانی منظور پشتین نے بلوچ راجی مُچی پر فائرنگ کے واقعات کو انتہائی افسوسناک عمل قرار دیا۔

ریاستی موقف:

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے الزام عائد کیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی تخریب کاروں کی پراکسی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی نام نہاد لیڈرشپ کرمنل مافیا کی پراکسی ہے، اس پراکسی کو ایجنسیز کو بدنام کرنے کا کام دیا گیا ہے، بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھا جمع کرنا ان کا کام ہے۔

بلوچستان کے موجودہ متنازعہ حکومت کی طرف سے بلوچستان اسمبلی کے فلور پر اعلانیہ کہا گیا کہ راجی مچی کرنے نہیں دینگے، بلوچستان کے متنازعہ وزیر اعلی سرفراز بگٹی نے اسمبلی فلور پر اپنے تقریر کے دوران دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ گوادر میں جلسہ کرنے نہیں دیا جائے گا اور جلسے کے شرکاء پر طاقت کا استعمال کریں گے۔

سرفراز بگٹی نے اپنے تقریر میں مزید کہا کہ آج کے بعد بلوچستان میں کہیں بھی شاہراہیں بند نہیں کئے جائینگے اور کسی کو دھرنا دینے کی اجازت نہیں ہوگی، تاہم بلوچستان اسمبلی کے اپوزیشن ارکان نے سرفراز بگٹی کے تکبرانہ تقریر پر کہا کہ وہ بادشاہ بننے کی کوشش نہ کرے، وہ صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، وزیر اعلیٰ ہی رہیں۔

گوادر دھرنے کے مطالبات؟

اٹھائیس جولائی کو گوادر پدی زر میں ایک عام جلسہ ہونا تھا جبکہ فورسز کی جانب سے شرکاء پر کریک ڈاؤن اور لوگوں کے قتل اور گرفتاریوں کے بعد اٹھائیس جولائی کی شام جب جلسہ اختتام پذیر ہوا تو راجی مچی کو دھرنے کی شکل دی گئی اور گوادر پدی زر کے مقام پر دھرنے پہ بیٹھ گئے، اس دوران بلوچستان کی حکومت کی جانب سے وزیر داخلہ ضیاء لانگو کو گوادر بھیجا گیا اور ان کا بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا ایک دور شروع ہوگیا۔ مذاکرات میں جو مطالبات بلوچ یکجہتی کمیٹی نے رکھے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

‏۱- مستونگ، تلار، گوادر، نوشکی اور تربت میں ایف سی کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے مظاہرین کی ایف آئی آر کور کمانڈر پر درج کیا جائے۔

۲- ہوم ڈپارٹمنٹ فوری طور پر نوٹیفکیشن جاری کرے کہ مزید ریاستی فوج کی جانب سے کسی بھی قسم کے تشدد کا استعمال نہیں کیا جائے گا

۳ ۔وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ خود گوادر آئے اور ہمارے ساتھ پریس کانفرنس کرکے یہ اعتراف کریں کہ اس پورے دورانیے میں ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار خود حکومت بلوچستان ہے جنہوں نے اس عوامی پرامن پروگرام کو تشدد سے کچلنے کی کوشش کی تھی اور طاقت کے استعمال کا حکم پاس کیا۔ حکومت بلوچستان جانی و مالی نقصان کی مذمت کرے۔

۔۴- تمام مظاہرین جنہیں بلوچ راجی مچی کے حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے یا گھروں سے چھاپے لگانے کے بعد جبری گمشدہ کیا گیا ہے، انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے اور تمام ایف آئی آرز کواش کیے جائے۔

۵- تمام راستے کھول دیے جائیں، گوادر سمیت مکران میں غیر اعلانیہ کرفیو فوری طور پہ ختم کیا جائے، گوادر میں پانی بحال کیا جائے، اور خطے بھر میں انٹرنیٹ سروسز فوری بحال کی جائیں۔

۶- حکومت پاکستان اس بات کو نوٹیفائی کرے کہ راجی مچی کے شرکاء یا مدد کرنے والے کسی بھی شخص کو نہ ہراساں کیا جائے گا اور نہ ہی مزید اس حوالے سے کوئی ایف آئی آر کی جائے گی۔ اور نہ ہی مستقبل میں کسی پرامن پروگرام پہ غیر ضروری طاقت کا استعمال کیا جائے گا

۷- اس راجی مچی کے دوران ریاستی فوج اور خفیہ اداروں نے عام عوام کو جتنا مالی نقصان دیا ہے جن میں ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کرنا، گاڑیوں کو جلانا یا ذاتی سامان ضبط کرنا شامل ہے، حکومت بلوچستان ان تمام نقصانات کا ازالہ کرے گی۔

اختتامیہ:

بلوچستان میں جاری پر تشدد مسلح جدوجہد کے بارے میں پاکستانی فوج و حکومت کا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیں اگر بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ اور مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کرکے، پر امن ذرائع جدوجہد اختیار کرکے مذاکرات کے میز پر آئیں تو انکے مطالبات سنے جائیں گے اور تمام خدشات دور کیئے جائیں گے۔

لیکن اس بابت بلوچ مسلح تنظیمیں بارہا یہ موقف دیتے آئے ہیں کہ بلوچستان میں ریاست نے پرامن سیاست کے تمام راستے مسدود کردیئے ہیں، اور غیرمسلح پر امن سیاسی کارکنان کو قتل یا لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ اسی ریاستی عدم برداشت و تشدد کی پالیسی کو ہی بلوچ مسلح جماعتیں اپنے پرتشدد ذریعہ سیاست کا سب سے بڑی وجہ و دلیل گردانتے ہیں۔

حالیہ مہینوں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی پر امن ذرائع سیاست اور آئین و قانون کے دائرے میں موقوف مطالبات پر فوج اور حکومت نے جس طرح تشدد، گرفتاریوں، پروپگنڈوں اور جبری گمشدگیوں کا بازار گرم کررکھا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج و حکومت کے ان دعووں میں کوئی سچائی نہیں جہاں و پرامن جدوجہد اور مذاکرات کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔

اسکی وجہ سے نا صرف بلوچ آزادی پسند مسلح جماعتوں کے دعوے اور طریقہ کار مضبوط جواز پا رہے ہیں، بلکہ وہ نوجوان جو بلوچستان کی سیاسی دہلیز پر نئے نئے قدم رکھے ہوئے ہیں، اور پرامن ذرائع سیاست استعمال کررہے ہیں، انہیں ریاستی رویہ مایوسی کی جانب دھکیل رہا ہے۔

لہٰذا یہ امر بعید از قیاس نہیں کہ یہ ہزاروں لوگ جو پرامن طریقے سے بلوچ راجی مچی کے سیاسی جلسے میں شریک ہونے سے روکے جارہے تھے، اور انتہائی تشدد کا سامنا کررہے تھے، وہ ریاست سے برابری کی سطح پر بات کرنے کیلئے مسلح جدوجہد کی جانب رخ کریں۔

اگر ریاست اسی طرح پر امن سیاسی کارکنان پر تشدد اور انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا، تو آنے والے دنوں میں ہمیں اسکے اثرات پرتشدد اور مسلح سیاسی جدوجہد میں نوجوانوں کی تیزی کے ساتھ رغبت کی صورت میں دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔