بلوچ راجی مچی اور چین و پاکستان کے عزائم – منیر بلوچ

322

بلوچ راجی مچی اور چین و پاکستان کے عزائم

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ راجی مچی صرف ایک منعقدہ جلسے کا نام نہیں تھا بلکہ راجی مچی ایک کامیاب قومی اجتماع کا نام ہے، جس نے جیونی سے کوہلو تک پورے بلوچستان میں ریاستی بربریت کو رد کرکے بلوچ قوم کو جبر کے خلاف نکلنے کے لئے ایک توانائی فراہم کی ہے۔

گوادر میں راجی مچی نے بلوچستان میں چین کی توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے بند باندھ کر دنیا کو پیغام دیا ہے کہ بلوچستان بلوچوں کی سر زمین ہے جس پر پہلا حق مقامی باشندوں کا ہے اور گوادر کو چین کے تسلط میں دے کر بلوچ سرزمیں کا سودا نامنظور ہے اور چین کے عسکری عزائم کو بلوچ زمین پر ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوم ایک جذبہ ہے جو زمین اور زبان کی وجہ سے ایک دوسرے کو جوڑتا ہے، جب کوئی دشمن قومی جذبے کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو قوم کی یکجہتی ناگزیر ہوجاتی ہے اور جب قوم جذبے کی بنیاد پر متحد ہوجاتی ہے تو کوئی بھی طاقت قوم کو شکست سے دو چار نہیں کرسکتی ہے۔

امریکی جنرل نے ویتنامی جنگ میں ناکامی کے بعد کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ ایک قوم سے تھا اور ایک قوم کو شکست نہیں دی جاسکتی ہے۔ تاریخ کے سنہرے الفاظ ہر جہدکار کے اذہان میں درج ہیں۔

ویتنام ہو، الجزائر ہو یا آج کی دنیا میں سب سے بڑی مثال فلسطین اور بلوچ قومی جدوجہد کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں، جو اسرائیل اور فاشسٹ پاکستانی ریاست کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کررہے ہیں اور دنیا میں ایک تاریخ رقم کررہے ہیں۔

اٹھائیس جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر، جو چین پاکستان منصوبے کا مرکز ہے، وہاں راجی مچی کا انعقاد کیا، جو پاکستان اور چین کے استحصالی منصوبوں کے لئے آتش فشاں ثابت ہوا۔

بلوچ راجی مچی کو روکنے کے لئے پاکستان نے چین کے ایماء پر گوادر مچی میں شرکت کرنے والے کئی قافلوں کو روکے رکھا، ان پر فائرنگ کی گئی، متعدد افراد زخمی ہوئے اور کئی افراد جانبحق ہوئے ہیں۔

بلوچ قوم تمام رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود گوادر میں راجی مچی منعقد کرنے میں کامیاب ہوا۔ ریاست نے سمی، صبیحہ اور شاہ جی کا اغوا کیا لیکن قوم نے قومی جذبے سے مزاحمت جاری رکھی اور ریاست کے سارے ہتھکنڈے ناکام کئے اور بلوچ قوم نے راجی مچی میں شمولیت اختیار کرکے استحصالی منصوبے سے اپنے نفرت کا اطہار کیا۔

یہ قومی جزبہ، نفرت جو آتش فشاں کی طرح پھٹا، وہ صدیوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، جو ریاست کی سفاکیت کے خلاف روز بروز بڑھ رہا ہے ۔ایک دہائی بعد بلوچستان میں مزاحمتی سیاست کا عملی اظہار ہوا ہے۔

اکیسویوی صدی کے پہلے دہائی میں انسرجنسی کو روکنے کے لئے بلوچ قومی رہنماؤں کو جبری گمشدہ کیا گیا اور اُن کی مسخ لاشیں ویرانوں میں پھینکی گئیں۔ ایک دہائی بلوچستان کی سیاست زیر زمین رہی اور آہستہ آہستہ جڑ پکڑ کر ایک تناور درخت کے صورت نمودار ہوتی گئی۔

وہ درخت جو قوم کو سایہ فراہم کرنے کی جدوجہد کرتا رہا لیکن اس تناور درخت میں ایک نفرت کی آگ بھی تھی جو بڑھ کر دشمن کے قائم کردہ خوف کا خاتمہ کرکے شہروں اور سڑکوں پر اس تناور درخت نے دشمن کی صفحوں میں کھلبلی مچادی اور خوف سے لرزتا دشمن اس سیاسی شعور کو دبانے کے لئے گولیاں برساتا رہا لیکن سچائی کبھی نہیں چھپتی کے مصداق آج دشمن ہر جگہ ذلیل و رسوا ہوا ہے۔ سچائی سب کے سامنے ہے کہ ایک پر امن مچی کو روکنے کے لئے اربوں روپے جھونک دئیے گئے لیکن شعور اور جذبات نے اربوں کے وسائل کو کوڑا دان کے نظر کردیا۔

گوادر بلوچوں کا مسکن ہے لیکن چین تزویراتی اہمیت کی وجہ سے بلوچ قوم کی منشاء کے بغیر معاہدات کرکے گوادر پر تسلط کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جہاں نیول بیس اور دیگر فوجی امور پر کام جاری ہے تاکہ چین اس خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرسکے لیکن بلوچ اپنے سر زمین کی دفاع کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

پاکستان نے چین کے کہنے پر عزم استحکام آپریشن کا اعلان کیا ہے جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ بلوچستان اور پختونخواہ میں خونی آپریشنوں کے ذریعے چین کے مفادات کا تحفظ کیا جائے تاکہ پاکستان کے قرضے رول بیک کئے جائیں اور چین سی پیک فیز ٹو پر کام کی ابتداء کرسکے۔

دہائیوں سے ظلم و جبر سے نبر آزما بلوچ قوم اس بات سے واقف ہے کہ پاکستان کے ہمراہ چین بھی بلوچ نسل کشی میں شریک جرم ہے اور بلوچستان میں نوآبادیاتی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں چین پاکستان کی نہ صرف حمایت کررہا ہے بلکہ جدید جنگی ساز و سامان سے پاکستان کو لیس کرکے بلوچ نسل کشی کا سامان پیدا کررہا ہے۔

چین کے عزائم واضح اور صاف ہیں کہ چین گوادر پر تسلط حاصل کرکے اس خطے میں امریکہ اور بھارت پر نظر رکھنے کے علاوہ ون بیلٹ ون روڈ کی کامیابی چاہتا ہے اور سی پیک اس کا اہم حصہ ہے جس کا مرکز گوادر ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کی کامیابی کے لئے چین اور پاکستان بلوچ نسل کشی سے دریغ نہیں کررہے لیکن نسل کشی کے باوجود بلوچ قوم کی جدوجہد کامیابی سے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ اگست کے مہینے میں چین، گوادر میں انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا افتتاح کررہا ہے جس کی وجہ سے چین اور پاکستان بلوچ راجی مچی سے پریشان ہیں اور بلوچ راجی مچی پر ریاستی جبر و سفاکیت نے پاکستان کا دہشت ناک چہرہ دنیا کے سامنے عیاں کردیا ہے۔

امریکہ، بھارت اور یورپی یونین سمیت مشرق وسطی کے ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ ون بیلٹ ون روڈ کی کامیابی سے نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں چین کی اہمیت کو دوگنا کرکے امریکی طاقت کو زوال پزیری کی طرف دھکیل سکتا ہے لیکن اسکے باوجود امریکہ بلوچستان میں بلوچ نسل کشی کو روکنے کے لئے منظم تحریک کی حمایت کرنے کے بجائے پاکستان کے لئے امداد کی سفارش کررہا ہے جبکہ بھارت، پاکستان اور چین کی دشمنی کے باوجود بلوچ قومی تحریک کو سپورٹ کرنے کے لئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہا ہے۔

دنیا کے معروضی سیاست سے واضح ہے کہ دنیا میں مفادات کی بنیاد پر ممالک کی قومی پالیسیاں مرتب ہوتی ہیں۔ بلوچ قیادت ادراک رکھتا ہے کہ عوامی شعور ہی طاقت ہے اور عوامی شعور ہی قومی مفادات کو حاصل کرکے دنیا میں بلوچستان کو ایک مقام دلا سکتی ہے اور اسی مقام کی بدولت دنیا بلوچستان کی طرف متوجہ ہو کر قومی تحریک کی حمایت کرسکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔