بلوچ راجی مُچی: اِس عہد کا عظیم ترین اجتماع – ڈاکٹر باری آجو

261

بلوچ راجی مُچی: اِس عہد کا عظیم ترین اجتماع

تحریر: ڈاکٹر باری آجو

دی بلوچستان پوسٹ

لفظِ راج سے ابتدا کریں اور مُچی تک آئیں تو ایک نظریاتی؛ مزاحمتی؛ قومی ولولہ اور تحریک کا منظر منعکس ہوتا ہے. ایک قومی افتخار کا احساس ہوتا ہے.. ایک انقلابی عمل نظر آتا ہے… 1932 اور 1933 کے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی یاد تازہ ہوتی ہے جب یوسف عزیز مگسی اور انکے ساتھیوں نے بلوچ راج کو اکٹھا کیا تھا.

راجی مُچی کا نام جن دماغوں نے سوچا. جن آنکھوں نے اس کا خواب دیکھا.. جن معصوم ہاتھوں نے اس کا پرچم تھام لیا.. اور جو بڑھتے ہوئے قدم اس راہ پر چل پڑے وہ یقیناً ایک عظیم مقصد اور منزل پر یقینِ کامل رکھنے والے ماہ رنگ و سَمّی اور صبیحہ و شاہ جی اور انکے فکری احباب تھے جو کوہِ سلیمان، درہِ بولان، وادیِ شال، سراوان و جھالاوان، ساحلِ کراچی و مکُران اور ارضِ بلوچستان کے کونے کونے سے راجی قافلے لیکر شہرِ حسن و جمال “گُوادَر” کے منزل کیطرف چل پڑے تو ثابت ہوا کہ راجی مُچی محض ایک نام نہیں بلکہ اس عہد کا ایک عظیم انقلابی عمل ہے. اس اجتماع کے لئے عمر اور جنس، علاقے اور قبیلے کے فرق کا خیال کیئے بغیر جو قافلے نکلے انہیں جگہ جگہ ریاستی رکاوٹوں کا سامنا تھا.. کہیں گرفتاریاں اور گمشدگیاں ہوئیں.. کہیں پرخار تاریں بچھا کر اور کنٹینر کھڑی کرکے راستے روکے گئے. کہیں آنسو گیس کی شیلنگ ہوتی رہی.. کہیں گولیاں برسائی گئیں مگر اس بد ترین کریک ڈاؤن کے با وجود ماہ رنگ و سمی کے قافلے پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھتے رہے یا شاہراہوں پر بیٹھ کر وکٹری کا نشان بناکر دھرنے دینے لگ گئے… مشاہدے کے مطابق جتنے لوگ گوادر کیطرف نکلے تھے اگر سب کے سب پہنچ پاتے تو گوادر میں قدم رکھنے کو جگہ نہیں ملتی… ایک بہت بڑے قافلے کو شال اور مستونگ سے نکلتے ہوۓ بزورِ (ایٹمی) طاقت روکا گیا جہاں کئی بلوچ مرد و زن گولیاں کھاکر زخمی اور شہید ہوۓ.. دیکھتے ہی دیکھتے مستونگ سے سریاب اور شال کی سڑکیں خود ایک راجی مُچی کا منظر پیش کرنے لگے.. دوسرا بڑا قافلہ کلات، جھالاوان اور رخشان سے ہوتے ہوۓ مکُران کی طرف بڑھا تو اسے 28 کا سورج طلوع ہونے سے قبل بالگتر کے قریب گوران کے پہاڑوں میں روکا گیا.. گوران کے پہاڑوں نے تاریخ میں پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ چاروں طرف بندوق اور راکٹ بردار وردی پوش کھڑے تھے اور بیچ سڑک پر بلوچ مائیں بہنیں کم سن فرزند اور پرعظم جوان وکٹری کا نشان بناۓ بیٹھے رہے.. سپیکر لیکر اپنا پیغام بیان کرتے رہے اور رکاوٹیں عبور کرنے کی تدبیر کرتے رہے… پھرچشمِ گوران نے دیکھا کہ بلوچ کا قافلہ چل پڑا. شیلنگ شروع ہوئی.. فائرنگ ہوئی.. کارواں کے کچھ کم سن فرزند اور مائیں بیہوش ہوۓ مگر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے کمال جرات اور حکمت عملی سے سب کو سنبھالا اور یہ رکاٹ عبور کرلیا…. یہ قافلہ ہوشاب کیچ اور دشت کے میدانوں سے ہوتے ہوئے دوسرے قافلوں سے جڑتے ہوۓ “تلار” کے قریب پہنچا تو ہم نے دیکھا کہ وہاں ایک اور راجی مچی پہلے سے موجود تھی.. سڑک پر تا حدِ نظر لوگ ہی لوگ تھے .. گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں.. شدید گرمی اور ہجوم میں بوڑھے اور بچے بیحال ہورہے تھے مگر رواں دواں تھے… گوادر پہنچنا تھا..ماہ رنگ نے پکارا تھا.. جہاں عظیم الشان راجی مُچی شروع ہونے کا وقت قریب تھا.. ماہ رنگ اور بحرِ بلوچ ہمارے منتظر تھے… دشت کے میدان اور تلار کے پہاڑ دیکھ رہے تھے فرزندانِ وطن وہاں بھی ایک راجی مُچی لگاۓ ہوۓ تھے… آگے ایک ایٹمی طاقت کھڑی تھی اور نہتے بلوچ راجی کاروان پر بد ترین شیلنگ اور فائرنگ کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری تھا.. جہاں پھر ساتھیوں کے زخمی اور شہید ہونے کی خبریں آرہی تھیں.. متبادل راستے بھی بند کئے گئے تھے جس کے باعث کیچ کاروان مرکزی راجی مُچی تک نہیں پہنچ پایا.. اُدھر کراچی اور کوسٹل ہائی وے سے آنے والے کاروان کو بُزی اور پسنی کے. مقامات پر روکنے کی اطلاعات تھیں.. مغربی بلوچستان کے قافلے بھی سرحد پر روک دی گئی تھیں.

سمی، شاہ جی اور ڈاکٹر صبیحہ کی گرفتاریوں کی خبریں تھیں نیٹ ورک بند ہونے کے سبب سب ایکدوسرے سے کٹے ہوئے تھے مگر چونکہ پوری بلوچ قوم اٹ کھڑی ہوئی تھی اس لئے لگ رہا تھا سب ایکدوسرے سے جڑے ہوئے ہیں.. اگلے دن کہیں کہیں پی ٹی سی ایل کا نیٹ ورک کچھ دیر کے لیئے کھلا تو سوشل میڈیا میں گوادر کے مناظر دیکھ کر بی وائی سی کی حکمت عملی اور بلوچ قوم کی مزاحمتی قوت پر یقین آگیا کہ تمام تر قدغنوں کے بعد بھی راجی مُچی نے کامیابی سمیٹ کر دکھا دیا… جی کامیابی… یہ کہ قائدین کی آواز پر پوری راج نے لبیک کہا اور اپنی مدد آپ چل پڑے.. یہ کہ ریاستی بندشوں کو خاطر میں نہیں لایا گیا.. یہ کہ اسقدر دشوار سفر اور اتنی بڑی اجتماع بی وائی سی انتظامیہ اور بلوچ راج کیطرف سے مکمل پر امن رہی.. یہ کہ ارضِ گوادر پر بلوچ حقِ ملکیت کا پرزور دعویٰ برملا کیا گیا.. یہ کہ نہ کہیں قیادت کا جھگڑا ہوا نہ قبائلی اور علاقائی تخصیص کا مسئلہ سامنے آیا.. یہ کہ ریاستی متشدد پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوا اور ذلت اور رسوائی کے سوا انکے ہاتھ کچھ نہیں آیا.. اور یہ کہ اس پورے عمل سے گلزمین کے فرزندوں نے مزاحمت کے ہنر میں مزید مہارت اور تجربہ حاصل کیا جو یقیناً ایک روشن مستقبل کی نوید ہے.

ہم نے بلوچ مزاحمتی تاریخ میں بڑے بڑے اجتماعات اور احتجاج دیکھے تھے. بابا خیربخش مری کے کابل سے شال واپسی کا استقبالیہ جلوس ہو یا شہید اکبرخان کی شہادت کے بعد احتجاجوں کے سلسلے ہوں، شہید غلام محمد اور بانک کریمہ کے زیر قیادت ہونے والے جلسےجلوس ہوں یا ماضی کے تاریخی اجتماعات ہوں.. یا پھر جبری گمشدگان کی بازیابی کے لئے کیچ تا اسلام آباد مارچ ہو…. موجودہ راجی مُچی نے سابقہ تمام رکارڈ توڑدیئے اور بلوچ کے بچے کو جدوجہد کا جو سرخ پرچم تھما دیا اسکی سربلندی یقینی ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔