ایجنڈا کیا ہوگا
تحریر: انور ساجدی
دی بلوچستان پوسٹ
پچاس سال پہلے ٹھیک آج کے دن(گزشتہ کل) بلوچستان کے تاریخی شہر مستونگ کے شاہی باغ میں ایک جلسہ ہوا۔ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس جلسے سے خطاب کیا۔ اس موقع پر اسٹیج کے سامنے کرسیاں لگائی گئی تھیں ـ پہلی اور دوسری رو میں ساراوان ، جھالاوان ، کچھی اور دیگر علاقوں کے سردار صاحبان تشریف فرما تھے۔ اسٹیج پر بھٹو صاحب کی کرسی کے دائیں طرف گورنر بلوچستان سابق خان میر احمد یار خان اور بائیں جانب وزیراعلیٰ جام میر غلام قادر بیٹھے ہوئے تھے۔
اس جلسے میں کئی دلچسپ واقعات رونما ہوئے ـ اس زمانے میں انسرجنسی یا مزاحمت عروج پر تھی۔ شاہراؤں پر کانوائے کے بغیر سفر ممکن نہ تھا۔ اس کے باوجود حکومت کا دعویٰ تھا کہ حالات پر قابو پا لیا گیا ہے اورصورتحال معمول پر ہے۔
بھٹو صاحب حسب عادت ترنگ میں تھے۔ انہوں نے سفید پگڑی پہنے ہوئے سردار صاحبان کو مخاطب کر کے لعن طعن کیا اور کہا کہ ہم نے بلوچستان سے سرداری نظام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ انہوں نے سردار صاحبان سے کہا کہ جو دہشت گرد باغی اور غدار اس وقت مسلح جنگ میں مصروف ہیں آپ ان کی نشان دہی کریں اور ان کے پکڑنے میں ان سے تعاون کریں۔ ان کی بات مکمل ہوتے ہی نواب عبدالقادر شاہوانی اپنی نشست سے اٹھے ۔ انہوں نے کہا کہ جناب وزیراعظم آپ باغی کہاں تلاش کر رہے ہیں یہ آپ کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ گورنر احمد یار خان کے بھتیجے شہزادہ سلمان پہاڑوں میں جنگ لڑرہے ہیں جب کہ آپ کے بائیں بیٹھے وزیراعلیٰ جام غلام قادر کے برادر نسبتی اسلم گچکی بھی برسرپیکار ہیں ـ آپ انہیں پکڑ کر تفتیش شروع کریں تو آپ کو سب کچھ پتہ چل جائے گا۔ بھٹو صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ان کے رشتہ دار ان کے خلاف ہیں کیونکہ وہ میرے ساتھ ہیں۔
اس موقع پر جام غلام قادر نے ایک جذباتی تقریر کی اورکہا کہ جناب قائد عوام آپ ان لوگوں میں فرق کریں جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اپنی ریاست رضا کارانہ طور پر ضم کرلی جبکہ کچھ لوگوں نے مجبور ہو کر ایسا کیا ـ وہ مسلسل خان صاحب کی طرف اشارہ کررہے تھے اس پر خان صاحب نے اٹھ کر کہا کہ چپ اے چھوٹو اپنے قد سے اونچی بات نہ کر ـ یہ کہہ کر وہ اسٹیج سے اتر گئے۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ ارے روکو بھئی روکو ـ خان صاحب کہے جا رہے تھے کہ مجھے پتہ ہے کہ جام صاحب نے کس کے کہنے پر مجھے ہدف بنایا ہے۔
ـ
1974ءہی وہ سال تھا جب بھٹو صاحب کی حکومت نے بلوچستان کے سرداروں اور میر و معتبرین میں نقد بخششوں کی تقسیم کا آغاز کیا تھا۔ میری دانست میں شاید ہی کوئی سردار ایسا ہو جس نے سرکاری بخشش لینے سے انکار کیا ہو۔ دو سردار نواب خیر بخش مری اور سردار عطاءاللہ مینگل تو گوریلا جنگ کی قیادت کر رہے تھے جبکہ نواب اکبر خان شہید 9 ماہ کی گورنری چھوڑ کر صاحب فراش تھے ـ انہیں باقی سرداروں کی طرح معمولی بخشش لینے کی ضرورت نہ تھی۔
جو سردار پہلی صف میں بیٹھے تھے ڈپٹی کمشنر کے اشارے پربھٹو صاحب کی تقریر کے دوران تالیاں بجا رہے تھے ـ جہاں تک بخشش کا تعلق ہے تو یہ عادت انگریزوں نے ڈالی تھی ـ 1947ءکے بعد بھی جاری رہی بلکہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
انگریزوں نے سرداروں کے ذریعے قبائلی سماج کو اپنا مطیع بنایا تھا اور سردار ایک اہم مہرہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سرداروں کو پہلی مرتبہ اسمبلیوں اور فنڈز کا مزہ بھی چکھایا گیا ـ یہ کم بخت فنڈز ایسے منہ کو لگ گئے کہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لیتے۔
1962,1958,1948 اور 1973 کی مزاحمتوں کی وجہ سے سرکار نے خلا میں جا کر اپنے لئے ایک انوکھی مخلوق زمین پر اتاری جس کی واحد قدر مشترک ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ ان لوگوں کا محدود دائرہ ہے جو اسمبلی کی رکنیت ، وزارت کی کرسی ، پی ڈی ایس پی کے ، ایم پی اے ، ایم این اے یا سینیٹرز فنڈ تک محدودہے۔ ان لوگوں نے حسن بن صبا کی جنت کی طرح ایک جعلی جنت بنا رکھی ہے اور ان کی زندگیوں کا حاصل صرف ایک لگژری وے آف لائف گزارنے کے سوا کچھ نہیں ہے ـ جو گلزمین اور اس کے عوام ہیں ان سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ بھلے یہ نیلام کر دئیے جائیں یا پٹے پر دئیے جائیں۔ ان کو صرف اپنے باس کا پتہ ہے اور وہ اس کے ہر اشارے کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔
ـ
برسوں سے حکمرانوں نے بلوچستان میں قدرتی ارتقا کو روک رکھا ہے۔ انہوں نے ایک جعلی اور دو نمبر نصاب بنا رکھا ہے ـ جعلی کہانیاں ، جعلی نظرئیے اور جعلی بیانیے وضع کئے گئے ہیں۔ بچوں کو ایک خیالی دنیا کے بارے میں پڑھایا جا رہا ہے ـ ان کا خیال ہے کہ وہ اس کرتب کے ذریعے نوجوانوں کے اذہان تبدیل کر دیں گے اور انہیں باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ محکومی کوئی بڑی چیز نہیں ہے ـ جو بھی حقائق ہیں وہ چھپائے جاتے ہیں اور جو اصلی تاریخ ہے وہ مسخ کر کے پیش کی جاتی ہے لیکن ارتقا ایک قدرتی عمل ہے ـ اسے مصنوعی طریقوں سے روکا نہیں جا سکتا اور جو جھوٹ ہے اس کے پاؤں نہیں ہوتے بالآخر وہ غلط ثابت ہو جاتا ہے ۔ ون یونٹ کے وقت یہ کہا جاتا تھا کہ بلوچستان ایک بے آب و گیاہ خطہ ہے اس کی کوئی آمدنی نہیں ہے۔ یہ مرکزی سرکار کی مہربانی ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو روزی روٹی مہیا کر رہی ہے۔ 1977کے مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاءالحق جب بھی بلوچستان آتے تو یہی کہتے کہ ہم ہر وقت قومی وسائل بلوچستان پر خرچ کرتے ہیں کیونکہ یہاں پر کچھ نہیں ہے حالانکہ ضیاءالحق کے دور میں سیندک کے مقام پر اربوں ٹن تانبے کے ذخائر ملے تھے جن میں سونے کی بڑی آمیزش تھی۔ آج چالیس سال ہونے کو ہیں سیندک کی دولت غائب ہے اور اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف کہتے تھے کہ مرکز مدد نہ کرے تو بلوچی بھوک سے مر جائیں حالانکہ اس وقت بھی لوٹی پیرکوہ سے اربوں مکعب فٹ گیس کوہ مری تک سپلائی ہو رہی تھی ، پنجاب کے کھاد اور چینی کے کارخانے اس گیس سے چل رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کی گیس کی قیمت سندھ اور پنجاب سے نکلنے والی گیس کے مقابلے میں تین گنا کم رکھی گئی تھی۔ وفاق کی یہ چوری تو کافی عرصہ پہلے پکڑی گئی تھی لیکن اس کی سینہ زوری اس وقت سامنے آئی جب زرداری نے پہلا این ایف سی ایوارڈ جاری کردیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ گیس کی آمدنی کا ایک معمولی حصہ بلوچستان کے لئے مختص کر دیا گیا۔
مشرف کے وقت میں پتہ چلا کہ وفاقی محکمہ زراعت ساحل بلوچستان میں چین ، جاپان ، تائیوان اور کوریا کے دیو ہیکل ٹرالروں کو اربورں روپے لے کر ماہی گیری کی اجازت کیوں دے رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ آمدنی پوشیدہ تھی اس وجہ سے نواب شہید نے ساحل و وسائل کے تحفظ کا نعرہ لگایا اور مشرف نے وسائل دینے کے بجائے نواب صاحب کی جان لے کر اپنی جان چھڑالی لیکن وہ بے خبر تھے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا کیونکہ مشرف کا تعلق اس سرزمین سے نہیں تھا وہ اس سے واقفیت نہیں رکھتے تھے ـ وہ نواب صاحب کو بھی بس ایک سردار سمجھتے تھے۔
موصوف نے یہ بھی کہا تھا کہ صرف تین سردار حکومت کے مخالف ہیں باقی 63 سردار ان کے ساتھ ہیں۔ اتفاق سے آج وہ تین سردار باقی نہیں ہیں جبکہ باقی تمام سردار آج بھی حکومت کی جیب میں ہیں لیکن یہ کھوٹے سکے ہیں۔ یہ نہ اپنی زمین کے وفادار ہیں نہ ہی اپنے عوام کے طرف دار ہیں اور نہ ہی کسی کے یار ہیں یہ بس اپنے ذاتی مفاد کے وفا شعار ہیں۔
سردار صاحبان ہوں یا دیگر لوگ یہ ہر اس جماعت کی زینت بن جاتے ہیں جسے مرکز کی آشیرباد حاصل ہو۔ 1988 سے اب تک یہ لوگ مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی ، جونیجو لیگ ، ق لیگ غرض ہر برسراقتدار جماعت کی زینت بنتے آ رہے ہیں۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی کنگز پارٹی باپ میں بھی شامل ہوئے تھے۔ آج یہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی زینت ہیں۔ یہ اسمبلیوں میں کس طرح آتے ہیں یہ سبھی جانتے ہیں۔
انہوں نے جس طرح ریکوڈک کی فروخت کے سودے کی منظوری دی ، جس طرح سی پیک کے معاہدوں پر آنکھیں بند رکھیں ، یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سابقہ ادوار میں جس طرح ہزاروں لوگ غائب ہوئے وہ بھی ہر ایک کو پتہ ہے۔ انہی ادوار میں آپریشن تیز ہوا ، یہ بھی ریکارڈ پر ہے لیکن کسی نے ایک بار بھی اعتراض نہیں کیا ـ حتیٰ کہ جب ن لیگ نے حکومت نیشنل پارٹی کو دی تو لوگوں کے غائب ہونے میں اضافہ ہوگیا ـ گویا بلوچستان کا انسانی المیہ اس حد تک بڑھ گیا کہ ناقابل برداشت ہوگیا ـ اس لئے لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج پر مجبور ہوئے۔
جب مرد حضرات تھک گئے تو قیادت کے لئے خواتین میدان میں آگئیں اور یہ پہلا موقع تھا کہ اربن اپ رائزنگ شروع ہوئی۔ عام لوگ حکمرانوں اور روایتی طالع آزما لیڈروں سے تنگ آئے تھے کیونکہ یہ لوگ جھوٹ بول بول کر بے نقاب ہوگئے تھے۔ اس لئے لوگوں نے ایک غیر مسلح نہتی لڑکی کو اپنا لیڈر مان لیا۔
وہ جانتے تھے کہ اس کے سیاسی مقاصد نہیں ہیں ـ اس نے وزیر اور گزیر بن کر سڑکیں اور نالیاں بنانے کے لئے فنڈ نہیں لینا ہے۔ اس لئے وہ وہ اس کے پیچھے ایک ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں ایک نیا ”فنانما“ سامنے آیا۔ مرد و عورت کی تمیز ختم ہوگئی ـ ٹرائبل چیف اور عام آدمی کا فرق مٹ گیا ـ ہر طرح کی ذات پات کا سلسلہ ختم ہوگیا ـ ایک غریب لڑکی کو متفقہ لیڈر تسلیم کر لیا گیا۔ کوہ سلیمان سے لے کرگوادر تک جس طرح لوگوں نے یک جہتی کا مظاہرہ کیا وہ ناقابل یقین اور محیرالعقول واقعہ ہے۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کی بنیاد پر کبھی ایسی جدوجہد دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اگر حکمران جبر سے کام نہ لیتے تو کیا ہوتا ؟ گوادر میں 10لاکھ لوگوں کا اجتماع ہوتا اس سے حکومت کو کیا فرق پڑتا؟ ـ کم از کم یہ حالات پیدا تو نہ ہوتے جو آج ہیں ـ کئی دن سے بلوچستان جام ہے ، راستے بند ہیں ـ زندگی کے معمولات جام ہیں۔
آخر حکمران بتائیں کہ وہ گوادر کے بارے میں اتنے حساس کیوں ہیں؟ ـ کل اگر ریکوڈک کی فروخت کے خلاف احتجاج ہوگا تو کیا اس طرح کا سلوک کیا جائے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ اگر حکمرانوں نے ریاست کو چلانے کے لئے بلوچستان کے وسائل کا سودا کیا ہے یا انہیں گروی رکھ دیا ہے تو اس کے خلاف پرامن مزاحمت تو ہوگی اور یہ احتجاج سب کا حق ہے۔ اتنے غصے کی کیا ضرورت ہے۔
جہاں تک بلوچستان کے مسئلے پر مذاکرات کا تعلق ہے تو کس بات پر مذاکرات ہونگے؟ ـ کوئی ایسا ایجنڈا ہے کہ اس پر گفت و شنید ہو جائے؟ گوادر واقعہ کے بعد بلوچستان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بیٹی کلثوم نے ایک پراثر تقریر کی لیکن آخر میں تان اس بات پر ٹوٹی کہ نیشنل پارٹی حکومت کے ہر اچھے اقدام کی حمایت کرے گی ـ
اسی طرح استاد شاہ محمد مری نے بڑا اچھا مضمون تحریر کیا ہے لیکن آخر میں ان کا مشورہ بھی یہی ہے کہ گفت و شنید کا سہارا لیا جائے ـ موصوف تو استاد الاستاد ہیں وہ بتائیں کہ بات چیت کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ ـ کیا نواب نوروز خان اور نواب شہید جیسے مذاکرات ہوں گے اور کیا انجام بھی وہی ہوگا؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔