حماس نے منگل کے روز غزہ میں اپنے اعلیٰ عہدیدار یحییٰ سنوار کو، انکے پیشرو کی ایران میں ایک مفروضہ اسرائیلی حملے میں ہلاکت کےبعد، نئے رہنما کے طور پر نامزد کر دیا ہے۔ سنوار کو حماس کے7 اکتوبر کے اسرائیل میں حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ یہ نامزدگی فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے سخت گیر دھڑے کی طاقت کی ڈرامائی علامت ہے۔
سنوار کا انتخاب، جو ایران سے قربت رکھنے والی ایک خفیہ شخصیت ہیں اور جنہوں نے حماس کی فوجی طاقت کو بڑھانے کے لیے برسوں تک کام کیا، اس بات کا اشارہ ہے کہ عسکریت پسند گروپ ، غزہ میں اسرائیل کی مہم سے 10 ماہ کی تباہی اور سنوار کے پیشرو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد بھی لڑنے کے لیے تیار ہے۔
اس کے نتیجے میں اسرائیل کے مشتعل ہونے کا بھی امکان ہے، جس نے انہیں 7 اکتوبر کو حملے کے بعد، اپنی ہلاکتوں کی فہرست میں سرفہرست رکھا تھا جس میں عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل میں 1,200 افراد کو ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک 39 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔
یہ اعلان ایک غیر مستحکم لمحے میں کیا گیا ہے جب ایک وسیع علاقائی جنگ میں اضافے کے خدشات بہت زیادہ ہیں، ایران نے ہنیہ کے قتل پر اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کا عہد کیا ہے اور لبنان کی حزب اللہ نے اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ہفتے بیروت میں ایک فضائی حملے میں اپنے ایک اعلیٰ کمانڈر کی ہلاکت پر بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے۔
امریکی، مصری اور قطری ثالث غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے پر بات چیت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ہنیہ کے قتل سے ہل کر رہ گیا ہے۔
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے ہنیہ کی جگہ سنوار کو اپنے سیاسی بیورو کا نیا سربراہ نامزد کیا ہے، جو ایک دھماکے میں مارے گئے تھے۔ جس کا الزام ایران اور حماس نے اسرائیل پر لگایا تھا۔ اسرائیل نے ذمہ داری کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمد ضیف کی غزہ میں جولائی کے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ حماس نے ابتک ان کی موت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
سنوار کی تقرری کے ردعمل میں اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل۔ ڈینیل ہگاری نے سعودی ملکیت والے العربیہ ٹیلی ویژن کو بتایا، “یحییٰ سنوار کے لیے صرف ایک جگہ ہے، اور وہ محمد دیف اور 7 اکتوبر کے باقی دہشت گردوں کے ساتھ ہے۔ یہی وہ واحد جگہ ہے جس کا ہم ان کے لیے ارادہ رکھتے ہیں اور تیاری کر رہے ہیں۔”
حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب سے حماس کے متعدد سینئر عہدیداروں کی ہلاکتیں سنوار کو گروپ کی سب سے نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے لائی ہیں۔ ان کا انتخاب اس بات کا اشارہ ہے کہ غزہ میں قیادت نے، خاص طور پر مسلح دھڑے قسام بریگیڈز نے، اس جلاوطن قیادت کی جگہ کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو روایتی طور پر غیر ملکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات اور سفارت کاری کے لیے مجموعی قیادت کی پوزیشن رکھتی ہے۔
ہنیہ نے، جو 2019 سے قطر میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، امریکی، قطری اور مصری مذاکرات کاروں کے ذریعے غزہ میں جنگ بندی پر ہونے والے مذاکرات میں براہ راست کردار ادا کیا تھا۔
اس اعلان کے بعد الجزیرہ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے کہا کہ سنوار جنگ بندی کے مذاکرات جاری رکھیں گے۔
انہوں نے اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ کو معاہدے پر مہر لگانے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا، “مذاکرات میں مسئلہ حماس میں تبدیلی نہیں ہے۔،”
انہوں نے کہا کہ سنوار کا انتخاب اس بات کی علامت ہے کہ گروپ کا عزم برقرار ہے۔ حماس “میدان جنگ اور سیاست میں ثابت قدم ہے”، انہوں نے مزید کہا کہ “آج قیادت کرنے والا وہ شخص ہے جس نے 305 دنوں سے زیادہ لڑائی کی قیادت کی اور اب بھی میدان میں ثابت قدم ہے۔”
حماس کے اتحادی ایران اور حزب اللہ نے سنوار کی تقرری کو سراہتے ہوئے بیانات جاری کیے ہیں۔
ایران میں حماس کے نمائندے خالد قدومی نے سنوار کو تمام دھڑوں کے درمیان “اتفاق رائے” سے تعبیر کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ مقبول ہیں اور مزاکرات سمیت گروپ کی فیصلہ سازی میں شامل ہیں۔ اے پی کو ایک صوتی پیغام میں، انہوں نے کہا کہ سنوار اپنی ریاست کے لیے فلسطینیوں کی سیاسی خواہشات اور پناہ گزینوں کی واپسی کو جانتے ہیں لیکن وہ “میدان جنگ میں ایک سخت جنگجو” بھی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرن یاں پیئر نے منگل کو ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ سنوار کی تقرری کے اعلان پر ان کے کوئی کمنٹس نہیں ہیں۔
پیر کو امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا، “(جنگ میں) اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے، یہ صرف مزید تنازعات، مزید تشدد، اور مزید عدم تحفظ کا باعث بنے گا، یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم غزہ میں جنگ بندی تک پہنچ کر اس چکر کو توڑدیں۔ ” اس کے نتیجے میں، یہ نہ صرف غزہ میں بلکہ ان دیگر علاقوں میں بھی جہاں تنازعہ پھیل سکتا ہے، زیادہ دیرپا امن کے امکانات کو کھول دے گا۔”