بلوچستان بھر کے سرکاری اور سیکورٹی عہدوں پر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے-
بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی کے حالیہ حملوں کے بعد سرکاری سطح پر انتظامی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر سرکاری اور سیکورٹی عہدوں میں تبدیلی کی جارہی ہے، متعدد اضلاع کے اسٹنٹ کمشنرز کے معطلی کے نوٹئفکشن جاری کردیئے گئے ہیں-
وزیر اعلی بلوچستان کے حکم پر اسسٹنٹ کمشنر کیچ، اسسٹنٹ کمشنر لورلائی اور دشت کے اسسٹنٹ کمشنر کی معطلی کے نوٹیفیکیشن جاری کردیئے گئے ہیں-
دوسری جانب کوئٹہ میں بھی بڑے پیمانے پر انتظامی عہدوں میں تبدیلی کی گئی جبکہ سیکورٹی کے حوالے سے آئی جی بلوچستان کا بھی تبادلہ کرکے نئے آئی جی کا انتخاب کیا گیا ہے-
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں بلوچ لبریشن آرمی کے مربوط حملوں کے بعد وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سمیت پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر نے بلوچستان کا دورہ کرتے ہوئے سرکاری عہدوں میں تبدیلی اور نئے سرے سے تشکیلی کا اعلان کیا تھا-
وزیر اعظم شہباز شریف کا بلوچستان کے دورے کے موقع پر کہنا تھا سرکاری افسران بلوچستان آنے سے کتراتے ہیں جنھیں لانے کے لئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا جبکہ سیکورٹی کی مد میں بھی بلوچستان کو کروڑوں کے فنڈز کا اعلان کیا گیا ہے-
بلوچ لبریشن آرمی کے گذشتہ دنوں ہونے والے حملوں کے بعد سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سیکورٹی خدشات نے جنم لے لیا ہے ان سیکورٹی خدشات کے باعث گوادر میں ایک اہم ائیرپورٹ کا آغاز سمیت بلوچستان میں ریلوے سروسز مکمل طور پر روک دیا گیا ہے-
واضح رہے کہ 25 اور 26 اگست کے درمیانی شب بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ایک شدید نوعیت کا آپریشن “ھیروف” شروع کیا گیا تھا جس کے تحت بی ایل اے کے ارکان نے 18 گھنٹوں تک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ناکہ بندی کرکے سڑکوں کو بلاک کردیا تھا-
مذکورہ آپریشن کے مرکزی حصے میں بی ایل اے نے ضلع لسبیلہ کے تحصیل بیلہ میں پاکستانی فورسز کے ایک مرکزی کیمپ کو مجید برگیڈ کے فدائین کے ذریعے حملے کا نشانہ بنایا تھا جو بی ایل اے کے مطابق 20 گھنٹوں تک انکے فدائین کے زیر قبضہ رہا-
بی ایل اے نے اس حملے میں پاکستانی فورسز، خفیہ اداروں سمیت دیگر سیکورٹی فورسز کے 130 اہلکاروں کے ہلاکت کی ذمہ دادی قبول کی تھی۔