مزاحمت کے سُرخ پرچم کا علمبردار لڑکی ۔ ثناء ثانی

610

مزاحمت کے سُرخ پرچم کا علمبردار لڑکی

تحریر: ثناء ثانی

دی بلوچستان پوسٹ 

مزاحمت کی چنگاری

تلار کے پہاڑوں کے بیچ ہمارا سفر شروع ہوا، ایک ایسا سفر جو محض جغرافیائی فاصلوں تک محدود نہ تھا بلکہ دل و دماغ کی گہرائیوں میں اترنے والا تھا۔ شام کا وقت تھا اور سورج اپنی آخری کرنیں زمین پر بکھیر رہا تھا۔ وہ لمحہ کچھ ایسا تھا جیسے فطرت خود کو کسی خاص مقصد کے لیے تیار کر رہا ہو، جیسے ہوائیں ہم سے ہمکلام ہیں، جیسے وقت ساکت ہوکر ہمیں دیکھ رہا ہو، یا شاید ہم وقت کے دھارے میں بہہ رہے تھے۔ آسمان نے نارنگی اور سرخی مائل رنگوں کا لباس اوڑھ رکھا تھا، اور تلار کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر یہ رنگ ایسے بکھرے ہوئے تھے جیسے کسی ماہر مصور نے بڑی محنت سے اپنے کینوس پر رنگ بکھریں ہوں۔

ہوا میں ایک عجیب سی سکوت تھی، مگر یہ خاموشی محض سکون کا پیغام نہ تھی بلکہ اس میں ایک گہری سرگوشی بھی تھی، جیسے یہ ہوائیں ہمیں کسی بڑے راز سے آشنا کر رہی ہوں۔ 

انہی لمحات بانک کریمہ نے اپنے کیمرے سے فطرت کے حسین مناظر کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی جذبے کو بھی قید کر لیا تھا ۔ ان کی نظر پہاڑ کی چوٹیوں پر جمی ہوئی تھی، جو اغیار کے خلاف جنگجوؤں کے فطری مورچے ہیں، جیسے وہ ان لمحوں کو اپنے دل کے کسی گوشے میں قید کررہی ہو۔ ان کی تصاویر میں پہاڑوں کی بے پناہ طاقت، ان کی پختگی اور عزم جھلک رہا تھا، جیسے یہ پہاڑ ہماری جدوجہد کی علامت ہوں۔

گزرتا وقت جیسے وہی ساکت ہوگیا تھا، جیسے وہ گزرے لمحے ہمیشہ کے لیے ہماری یادوں میں قید ہو گئے ہوں۔ وہ لمحے آج بھی ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے اس وقت ان پہاڑوں پر ایک نئے انقلاب کی چنگاری جلائی تھی۔ سنگلاخ چٹانوں کے بیچ شور کرتی ہوائیں، جو ہمیشہ سرگوشی کرتے ہمیں یاد دلاتی ہوں کہ ہم کِس راستے کے مسافر ہیں اور تلاش مقصد کے لئے ہمہیں کس سمت سفر کرنا ہے۔ تلار کے پہاڑ، جو صدیوں سے کھڑے ہیں، آج بھی ہماری جدوجہد کی داستانوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔

اُس شام دڑامب کے پہاڑوں کی دامن میں گزرے لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہماری حصول مقصد کا مزاحمتی سفر ہماری منزل ہے اور آنے والی نسلوں اِس سرزمین پر آزادی کا سُرخ پرچم لہرائیں گے۔ وہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم نے یہاں اپنے دلوں میں ایک نئے انقلاب کی جنگاری جلائی تھی، اِس کی روشنی کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں اپنے سروں کی بلیدان دینا ہوگا۔

بانک کریمہ کی تصاویر میں قید یہ مناظر محض تصاویر نہیں بلکہ وہ داستانیں ہیں جو آج بھی ہماری جدوجہد کو ہوا دے رہی ہیں۔ تلار کے پہاڑوں میں گزرے ہوئے وہ لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہماری مزاحمت صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ ہر اس سخص کے لیے ہے جو آزادی کا خواب دیکھتا ہے۔

یہ پہاڑ، جو ہمیشہ سے مضبوطی اور استقامت کی علامت رہے ہیں، یہ پہاڑ سچے جزبوں سے سرشار جنگجوؤں کی بہادری کے گواہ ہیں، جِن کے دلوں میں آزادی کا شمع روشن ہے۔ اُس شام، جب ہم نے ان پہاڑوں کے بیچ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کیا اور اُس عزم پر آج بھی پوری قوم قائم ہے۔ 

اُس سفر میں ہمہیں ادراک ہوا کہ ہم صرف پہاڑوں کے پُر پیچ راستوں سے گزر نہیں رہے بلکہ ایک ایسے سفر پر تھے جو ہماری روحوں کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ ان پہاڑوں کی بلندیوں میں ہمیں اپنی کمزوریاں اور طاقت دونوں نظر آر ہے تھے ۔ ہم نے اپنے دلوں میں ایک نیا عزم پیدا کیا، وہ عزم جو انقلاب کی آفاقیت سے وابستہ تھا 

تلار کے مزاحمتی داستان ہماری زندگیوں کو مقصد دے رہے ہیں۔ یہ داستانیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ یہ صرف آغاز ہے۔ ہمارا سفر، جو ان پہاڑوں میں شروع ہوا تھا، آج بھی جاری ہے، اور یہ سفر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم اپنی منزل تک نہ پہنچ جائیں۔

تلار کے پہاڑوں پر گزرے ہوئے اُس شام ہم نے اپنی روحوں میں ایک نئے انقلاب کی چنگاری جلائی، ایک ایسا انقلاب جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ان پہاڑوں کی ہوائیں، جو ہمیشہ سرگوشی کرتی ہیں، ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری جدوجہد کی یہ داستان ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گی۔ یہ پہاڑ، یہ ہوائیں، اور یہ شام کے لمحات ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں، اور یہ داستانیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ یہ سفر ابھی جاری ہے۔

تلار گواہ رہنا کہ ہم نے تمہارے دامن اپنی روحوں میں ایک نئے انقلاب کی چنگاری جلائی، ایک ایسا انقلاب جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پہاڑوں کی بلندیوں میں، ہوا کی سرگوشیوں میں، اور ہماری یادوں کی مہک میں، پہاڑوں کی چوٹیوں پر، جہاں سورج کی آخری کرنیں بکھرتی ہیں۔ اے عظیم پہاڑ تمہارے آبلہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہمارا سفر ابھی جاری ہے۔ بقا ؤ فنا کی جنگ جاری ہے، 

مزاحمت کا منظر بدلتا ہے

تلار کی سنگلاخ وادیوں میں ہواؤں کی سرگوشیاں آج مزاحمت کی کچھ اور ہی داستان سنا رہی تھیں۔ یہ داستان محاذ جنگ میں سُرخرو پاسبانِ وطن کی نہیں تھی، بلکہ یہ عشق کا وہ داستان ہے جو وطن کے مٹی سے محبت کرنے والوں کے دلوں آگ کو روشن کئے ہوئے ہے ۔ یہ عشق سرزمیں ہے، وہ زمین جو اپنی بیٹیوں کے لیے کبھی مہربان سایہ اور کبھی سخت کوشی کا امتحاں ہے۔ یہ عشق وطن ہے اُن کی سنگلاخ پہاڑوں سے، خوبصورت وادیوں سے، اور ان ہواؤں سے جو پھولوں کی خوشوں سے سرزمین کو مطر کئے ہوئے ہیں جہاں بلوچ قوم صدیوں سے زندگی بسر کررہا ہے ۔

کیچ کو بحر بلوچ سے ملانے کے راستے تلار کے پہاڑی سلسلے پر دشمن نے قندقیں کھود کر، کنٹینر کی دیوار بنا کر اور کاردار تاریں لگا کر بند کردیا تھا اور دشمن فوج کے سینکڑوں سپاہی ہتھیاروں سے لیس عشاقِ وطن کے قافلے کو روکھے ہوئے تھے۔ 

اُس دن آسمان پر بادلوں کا ہجوم تھا، گویا فطرت بھی مزاحمت کا ہمرکاب تھا۔ راجی اجتماع اس زمین کی بقاء کی جنگ کا حصہ تھا جسے استعماری طاقتیں حرس کے غرض بلوچ وطن کو روندنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اس اجتماع میں مردوں اور عورتوں کا ایک سیلاب تھا، لیکن اس ہجوم میں ایک سُرخ پوشاک میں ملبوس بلوچ لڑکی نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ کریمہ کے دئے ہوئے سرخ پرچم کی بیرک دار لڑکی، اس لڑکی کے کی آنکھوں میں محبتِ وطن اور قابص سے نفرت ایک ساتھ موجود تھی، جو دہائیوں کی جبر و سفاکیت نے پروان چڑھائی تھی۔ 

انقلاب کی سُرخ رنگوں سے مزین وہ لڑکی بلوچ سر زمین کی بیٹی ہے ، جس کے دل میں اپنی مٹی کی خوشبو اور اپنے دشمنوں سے نفرت کی آگ ہے ۔ اس کی سرخ پوشاک محبت اور مزاحمت کا رنگ ہے جو اپنی زمین سے جڑی ہوئی تھی، اور اس نفرت کی علامت بھی جو دشمن کے ظلم کے خلاف بھڑک رہی تھی۔

جب قابض فوج اپنے ہتھیاروں کی سنگینیں لے کر قومی مجمع کی جانب بڑھیں تو اس لڑکی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس کے وجود سے پیوستہ سرزمین کا عشق، زمین کے ہر ذرہ سے وابستہ تھا، عشقِ وطن اسے ایک نئی راہ دکھا رہا تھا، وہ راستہ، جس پر چلنے والے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے، وہ راستہ جو آزادی اور بقا کی راستہ ہے۔ 

وہی راستہ جس پر چلی کی حسین آنکھیوں والی لڑکی پولیس کے سنگینوں کے سامنے اکیلی کھڑی جبر کے خلاف اعلان بغاوت کررہی تھی، چلی کے اُس لڑکی کی آنکھوں میں چمک جو پولیس سے آنکھیں ملاتے ہوئے اپنے مقصد پر فدا ہونے کے لئی تھی ، اُس کا انقلابی جزبہ لال پری کے جزبے سے مختلف نہیں تھا کیونکہ انقلاب لا جزبہ آفاقی ہے ۔۔

انقلاب کے سرخ رنگوں کی پوشاک پہنے نہتی لڑکی جانتی تھی کہ اس کی جنگ اُن استعماری طاقتوں سے ہے جو اس کے زمین کو تاراج کرنا چاہتے ہیں۔

جب فوجی دستے گولیوں کی بوچھار کرتے ہوئے اس اجتماع کو منتشر کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اس لڑکی نے اپنی لال پوشاک کو سنبھالا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کی طرف قدم بڑھاتی رہے، وہ جانتی تھی کہ یہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں، بلکہ اپنے دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کا ہے۔ اس کی آنکھوں میں وطن کے محبت کی دیا جل رہا تھا، اُس آگ سے وہ دشمن کی بھسم کرنا چاہتی تھی۔ وہ آگ جو دشمن کی دلوں میں بھی خوف پیدا کرے۔ 

وہ لال پری، جو بلوچ قومی مزاحمت کا علمبردار اور قابض سے نفرت کا علامت بن رہی تھی، ایک نئی داستان رقم کر رہی تھی۔ اس نہتی لڑکی کے دل میں محبت کے وہی خواہش پنہاں تھی جو ایک ماں اپنے بچے کے لیے محسوس کرتی ہے، اور نفرت کا وہی لاوا پنپ رہا تھا جو ایک جنگجو اپنے دشمن کے لیے رکھتا ہے۔ نفرت اور محبت کا یہ امتزاج تلار میں مزاحمت کو ایک نئی جہت عطا کررہے تھی۔ 

کیچ کی وہ نہتی لڑکی نے جی تری تھامے فوجیوں کی طرف پتھر پھینکا، تو گویا اس نے سرزمین کی دفاع کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کا عزم کر لیا تھا 

پتھر جو استعماری قوتوں کے خلاف مزاحمت کے جزبوں سے سرشار نہتے لوگوں کا ہتھیار ہے، وہی ہتھیار جو نہتے فلسطینوں کی اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کو تاریخ میں نقش کرچکا ہے۔ 

وہ پتھر محض ایک ہتھیار نہیں تھا، بلکہ اس کے دل کی وہ آواز تھی جو صدیوں سے اس کے اندر دبی ہوئی تھی۔ یہ اُس کی مٹی کی پکار تھی، جو اس کے دل میں گونج رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں سے پھینکا گیا ہر پتھر گویا اس زمین کی حفاظت کے لیے ایک مقدس عبادت تھا۔ بلوچستان اُس کے لئے یورشلم کی مقدس زمین ہے جس کے لئے وہ خود کو فناء کرنے کے تیار گولیوں کی بوچھاڑ میں قابض فوجیوں پر پتھر پھینک کر مزاحمت کررہی تھی۔ 

فوجی دستے اس کے عزم و حوصلے کے سامنے بے بس ہو گئے تھے۔ ان کی بندوقیں، ان کے ٹینک، ان کی بکتر بند گاڑیاں، سب کچھ اس لال پری کے آگے ناکام ہو چکے تھے۔ اس لال پوشاک والی لڑکی کے دل میں اپنی زمین کی محبت اور دشمن سے نفرت نے اسے ایک ایسی طاقت عطا کی تھی جو کسی بھی ہتھیار سے زیادہ مضبوط تھی۔

فوجیوں کی طرف سے جب گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوئی تو اس لڑکی نے نہ ہچکچاتے ہوئے اپنی لال پوشاک کو مضبوطی سے تھام لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی کا مقصد صرف اپنی زمین کی دفاع کرنا ہے۔ تلار میں مزاحمت کرتے ہوئے وہ زندگی کا ہر لمحہ سرزمین کے لئے وقف کرچکی تھی اور مزاحمت کرتے ہوئے سرزمین کے آغوش میں فناء ہونے کے تیار لڑ رہی تھی۔ 

وہ لمحہ، جب اس لڑکی نے آخری بار اپنی مٹی کو چوم کر اپنے دشمن کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، وہ لمحہ تاریخ کا وہ لمحہ تھا جب ایک نئی داستان رقم ہوئی۔ اس کی لال پوشاک گویا بلوچ قوم کی جنگ کا ایک نشان بن گئی، جو آنے والی نسلوں کو اپنی زمین کی محبت اور دشمن سے نفرت کا درس دیتی رہے گی۔ مزاحمت کے اُس لمحہ تاریخ میں پنوں میں وہ نقش ہورہی تھی۔ 

اس کی آنکھوں میں اس شرزمیں کی شبہہ اور اس کے لبوں پر ایک آخری دعا تھی: “اے میرے رب، میری مٹی کو میرے خون سے سرخ کر دے، تاکہ آنے والے وقتوں میں کوئی بھی دشمن اس پر قبضہ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔” اس کی یہ دعا گویا ایک وصیت تھی، جو اس نے اپنی زمین کے لیے لکھ کر ہواؤں کے دوش گلزمین کے سپرد کردی تھی۔

جب اس لڑکی کا جسم زمین پر گرا تو اس کی لال پوشاک گلزمین کی مٹی کے ساتھ مل گئی، جس سے وہ محبت کرتی تھی۔ سرزمیں، جہاں شہیدوں کے قربانی سے آزادی کا سورج طلوع ہونا ہے، اب اس کے جسم کو اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔ اس کے جسم کے ساتھ اس کی لال پوشاک بھی اس زمین میں سپرد ہو گئی، لیکن اس کی داستان ہمیشہ کے لئے امر ہوچکی تھی۔

قابض کی سفاکیت انقلاب کے رنگوں سے مزین اُس نہتی لڑکی کو اپنے ہتھیاروں سے خاموش نہ کر سکی، اس کی آواز ہمیشہ کے لیے ان پہاڑوں میں پہاڑوں میں گونجتی رہے گی، اُس کی بہادری کی گواہی دیتی رہی گے۔ اس کی لال پوشاک اب بلوچ قوم کی ایک ایسی علامت بن چکی ہے جو زمین کی محبت اور دشمن سے نفرت کا درس دیتی رہے گی۔

تلار کی سنگلاخ پہاڑوں میں وطن کے لئے سربکف جنجگو اُس لال پری کے عزم کو اپنے بہادری سے دہرا رہے ہیں ۔ وہاں کی ہوائیں تلار سے گزرتے کاروانوں کو اُس لڑکی عزم و ہمت کی داستاں سناتی ہیں۔ اس کی لال پوشاک گویا اس زمین کی روح میں پیوست ہو چکی ہے۔ 

یہ داستان صرف ایک لڑکی کی نہیں، بلکہ اس مٹی سے جڑی ہوئی ہر بلوچ کی ہے جو اپنی زمین سے محبت اور دشمن سے نفرت کو اپنا ایمان سمجھتا ہے۔ یہ داستان ایک ایسے عشق کی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، اور ایک ایسی نفرت کی ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

یہ لال پری کی داستان ہے، جو بلوچ مزاحمت کی نئی تاریخ اپنے خون سے لکھ چکی ہے۔ اس کی لال پوشاک ہمیشہ کے لیے بلوچ قومی مزاحمت کی علامت بن چکی ہے، اور اس کا نام تاریخ میں استعمار کے خلاف مزاحمت کی داستان کے طور پر ہمیشہ امر رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔