فدائی ماہل بلوچ کون تھی؟

2429

بلوچستان کے علاقے بیلہ میں 26 اگست کی رات پاکستانی فورسز کی کیمپ کو بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کی فدائی ماہل بلوچ عرف زلان کردنے کیمپ کے دروازے پر بارود سے بھری ایک گاڑی کوٹکرانے کے بعد دھماکہ کیا ۔جس کے بعد دیگر فدائی کیمپ میں داخل ہوگئے ۔

بی ایل اے کے مطابق بیلہ میں آپریشن ھیروف کا آغاز ماہل بلوچ کی گاڑی ٹکرانے سے ہوا۔

بلوچستان پولیس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بیلہ میں ایف سی کیمپ پر خودکش حملے میں ایک خاتون بھی شامل تھیں۔

ایس ایس پی کیپٹن نوید عالم نے بتایا کہ ایف سی کیمپ پر حملہ کرنے والے پانچ فدائین ہلاک ہوئے جن میں ماہل نامی خاتون سمیت تین خودکش بمبار شامل تھے۔

ماہل بلوچ کا تعلق گوادر شہرسے 25 کلومیٹر دور سربندن سے تھا۔وہ سربندر کے مشہور ومعروف شخصیت مرحوم کہد عصاکے بیٹے کہدہ حمید عصا کی بیٹی تھیں۔

حمید عصا سربندر یونین کونسل کے دور بار چیئرمین رہ چکے ہیں جبکہ بابوگلاب جوماہل بلوچ کے چچاہیں وہ دو بار گوادر کے ضلعی ناظم اور چیئرمین رہے ہیں۔

ماہل کے ایک ماموں بھی سرکاری افسر ہیں۔

کہدہ حمید اور ان کے بڑے بھائی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

کہدہ حمید کے چھ بچے ہیں جن میں سے ماہل پانچویں نمبر پر تھیں۔

ماہل بلوچ نے ڈگری کالج گوادر سے ایف اے کیا اور اس کے بعد تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا جہاں وہ آخری سمیسٹر کی طالبہ تھیں۔

23 سالہ ماہل بلوچ تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی ( وکالت )کی طالبہ تھیں۔

بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ کا کہنا ہے کہ ’ماہل بلوچ نے 2022 میں باقاعدہ طور پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد 2023 میں وہ مجید برگیڈ کا حصہ بنیں اور اس دوران انھوں نے تربیت بھی لی۔‘

ماہل کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہی تھی اور اس وقت آٹھویں سیمسٹر میں تھی۔‘

بیلہ میں فورسز کیمپ پر ماہل بلوچ کے خودکش حملے پر حمید بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ بات ان کے لیے ’باعث تعجب تھی۔‘

انہوںنے کہا کہ 23 اگست کے دن جب ماہل بلوچ یونیورسٹی کی چھٹی ختم ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہوئیں تو کچھ بھی غیر معمولی نہ تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حمید بلوچ نے بتایا کہ اسی دن شام کو ایک بار پھر گھر والوں سے خود ہی رابطہ کیا اور بتایا کہ ان کا فون ٹھیک نہیں اور اب وہ خود ہی دوبارہ رابطہ کریں گی۔

یہ جمعے کا دن تھا اور ان کی بیٹی ماہل کا اپنے گھر والوں سے یہ آخری رابطہ تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ماہل گرمیوں کی چھٹیوں میں کوئٹہ وکالت کی پریکٹس کے لیے انٹرن شپ کر رہی تھیں جہاں اس کے ساتھ کزنز بھی موجود تھیں۔‘

ماہل کے والد حمید کا کہنا ہے کہ وہ خود یہ دیکھ کر حیران ہیں کیونکہ ’گھر میں بلوچی ادب تو پڑھا جاتا ہے باقی انگریزی کی صرف نصاب کی کتابیں ہوتی تھیں۔‘ ماہل نے یہ کہاں پڑھیں وہ نہیں جانتے۔

ماہل بلوچ کی فیملی کا پس منظر تو سیاسی رہا ہے تاہم ان کے اہلخانہ اور دوستوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے خود کبھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔

ان کے ایک ساتھی طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا گزشتہ چار سال کی شناسائی کے دوران ماہل کسی بحث یا مباحثے میں شریک نہیں ہوتی تھیں۔ ’نہ ہی کبھی اس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ کسی عسکریت پسندانہ کارروائی میں شریک ہونا چاہتی تھی۔‘

ماہل کے ایک اور کلاس فیلو نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بظاہر اس کو سیاست میں دلچسپی نہیں تھی اور وہ مسلح جدوجہد کے بارے میں بھی کبھی بات نہیں کرتی تھی۔‘

ان کا دعوی ہے کہ انھوں نے زیادہ تر ماہل کو پڑھائی میں مصروف ہی دیکھا۔ ’ایک مرتبہ ہم نے بات کی کون پریکٹس کرے گا اور کمیشن کے لیے تیاری کرے گا، تو ماہل کو زیادہ وکالت سے دلچسپی تھی۔‘

ماہل بلوچ کے اہلخانہ کے مطابق ان کے خاندان میں نہ کبھی کسی کی جبری گمشدگی ہوئی اور نہ کبھی کسی کی مسخ شدہ لاش ملی۔

ایک سوال کے جواب میں ماہل کے والد نے دعوی کیا کہ ’وہ کن لوگوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی تھی‘، اس بارے میں انھیں یا فیملی میں سے کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔

’کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ وہ طویل عرصے تک رابطے میں نہ رہی ہو یا کہیں چلی گئی ہو۔‘

تاہم بی بی سی کے ایک سوال کے جواب میں بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ نے دعوی کیا کہ ’ماہل بلوچ نے 2022 میں باقاعدہ طور پر تنظیم میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد 2023 میں وہ مجید برگیڈ کا حصہ بنیں اور اس دوران انھوں نے تربیت بھی لی۔‘

جیئند بلوچ نے ایک اور سوال کے جواب میں دعوی کیا کہ ’خودکش حملے کے وقت ماہل اکیلی گاڑی چلا رہی تھیں۔‘

ماہل کے ایک دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھوں نے 2021 میں تربت یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا اور اسی سال 21 فروری کو ان کی باقاعدہ کلاسوں کا آغاز ہوا تھا۔

ماہل کے والد کہدہ حمید کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے دکھ ہوتا ہے لیکن ہم نے اس کو یہ ہدایت نہیں دی تھی کہ یہ کام کرے۔‘

ماہل بلوچ بی ایل اے کی جانب سے بطور فدائی بمبار استعمال ہونے والی تیسری خاتون تھیں۔

اس سے قبل اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نے کنفیوشس سینٹر کے باہر فدائی حملہ کیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد مارے گئے تھے۔

شاری بلوچ عرف برمش تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ دو بچوں کی والدہ تھیں اور ان کے شوہر پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ ان کا تعلق ضلع تربت کے علاقے نظر آباد سے تھا۔

تربت میں جون 2023 میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک خودکش حملہ آور کی شناخت سمیعہ قلندرانی بلوچ کے نام سے کی گئی تھی۔