غزہ میں فوج رکھنے کے اسرائیلی مطالبے جنگ بندی معاہدے میں رکاوٹ ہیں – رائٹرز خصوصی رپورٹ

100

رائٹرز کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی مستقبل میں فوجی موجودگی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اختلافات کسی جنگ بندی اور یرغمالوں کے معاہدے کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے کو یہ بات گزشتہ ہفتے امریکی ثالثی میں انجام پانے والے مذاکرت کے دور سے واقف 10 ذرائع نے بتائی۔

ذرائع نے، جن میں حماس کے دو اہلکار اور تین مغربی سفارت کار شامل ہیں، رائٹرز کو بتایا کہ یہ اختلافات ان مطالبات کا نتیجہ ہیں جو اسرائیل نے اس کے بعد پیش کیے جب حماس نے امریکی صدر جو بائیڈن کی پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کے ایک ورژن کو قبول کر لیا۔

رائٹرز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق تمام ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کو اسرائیل کی جانب سے ایک مشرقی ۔مغربی پٹی، نیٹزریم راہداری کے ساتھ، جسے اسرائیل نے موجودہ جنگ کے دوران کلیئر کر دیا تھا ، اور ساتھ ہی غزہ اور مصر کے درمیان سرحدی پٹی میں جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے اپنے فوجیوں کی موجودگی بر قرار رکھنے کے مطالبے پر تشویش ہے جو فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو روکتی ہے ۔

ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر حساس معاملات پر کھل کر بات کی ۔

اسرائیل کی فلاڈلیفی کوریڈور پر موجودہ گرفت اسے مصر کے ساتھ واقع غزہ کی سرحد کا کنٹرول فراہم کرتی ہے، جو محصور غزہ کی واحد گزر گاہ ہے جو اسرائیل کی سرحد سے متصل نہیں ہے ۔

مذاکرات کے قریبی ذرائع میں سے ایک نے رائٹرز کو بتایا کہ حماس کے نزدیک اسرائیل نے اپنی شرائط اور پیرامیٹرز کو آخری لمحے میں تبدیل کیا ہے اور اسے فکر ہے کہ اگر اس نے کوئی بھی رعایت دی تو وہ مزید مطالبات کرے گا۔

فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے میڈیا آفس نے اس خبر پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے مذاکرات سے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کسی پیش رفت کی کوشش میں خطے کا ایک دورہ کیاتھا جو منگل کو ختم ہوا۔ نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد بلنکن نے کہا کہ اسرائیل نے امریکہ کی نئی تجویز کو قبول کر لیا ہے جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے تازہ ترین اختلافات کو دور کرنا ہے ۔ انہوں نے حماس سے بھی ایسا ہی کرنے پر زور دیا ہے۔

انہوں نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا، “ایک بار ایسا ہو گیا تو ہمیں عمل درآمد کے تفصیلی معاہدوں کو بھی مکمل کرنا ہو گا جو جنگ بندی پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ ہوں گے۔”

رائٹرز کے مطابق فریقین نے اس تجویز کو جاری نہیں کیا ہے جسے بلنکن نے اختلافات دور کرنے کی تجویز یا برجنگ پروپوزل کہا تھا اور رائٹرز نے اس کی کاپی نہیں دیکھی ہے۔

ایک مغربی سفارت کار نے، امریکہ کی زیر قیادت بات چیت میں اسرائیل کے تازہ ترین مطالبات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے دونوں راہداریوں میں اسرائیلی فوجیوں کی مسلسل تعیناتی سمیت نیتن یاہو کی تجویز کردہ تبدیلیوں کو قبول کر لیا ہے۔

امریکی موقف

ایک امریکی اہلکار نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے موضوعات کے ساتھ ساتھ “عملدرآمد” پر مذاکرات کا مقصد فلاڈیلفی اور نیٹزاریم راہداریوں، فلسطینی قیدیوں کی تعداد اور اس بارے میں اختلافات کو دور کرنا ہے کہ کس کو رہا کیا جانا ہے۔

بلنکن نے ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی فوجیوں کی طویل مدتی بنیاد پر غزہ میں قبضے کی کسی بھی تجویز کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ معاہدے میں اسرائیلی فوجیوں کے انخلا کا شیڈول اور مقام بالکل واضح تھا۔

مذاکرات کا اگلا مرحلہ

مذاکرات کا اگلا دور آنے والے دنوں میں قاہرہ میں متوقع ہے جو امریکہ کے “برجنگ پروپوزل” کی بنیاد پر ہو گا۔

مذاکرات کے قریبی ذرائع نے بتایا ہےکہ امریکہ کےاعلیٰ مذاکرات کار سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز، ان کے اسرائیلی ہم منصب موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا، قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی اور مصر کے اہم مذاکرات کار کی شرکت متوقع ہے۔

ارائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایران کی وزارت خارجہ نے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ سی آئی اے نے برنز کے سفر کو ظاہر نہ کرنے کی اپنی پالیسی کے مطابق کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

حماس کے دو عہدیداروں نے کہا کہ امریکی تجویز میں اسرائیل کی جانب سے پیش کی گئی کچھ تبدیلیاں شامل ہیں جنہیں وہ مسترد کرتے ہیں۔ ان میں راہداریوں کے ساتھ “اسرائیل کی فوجی موجودگی” کی اجازت دینا اور یرغمالوں کے کسی تبادلے میں کچھ فلسطینی قیدیوں کو غزہ یا مغربی کنارے کے بجائے جلاوطنی میں رہا کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

تاہم، امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ “برجنگ پروپوزل” میں ایسا کچھ نہیں تھا جس نے نیٹزاریم کوریڈور پر پہلے سے طے شدہ وعدوں کو تبدیل کیا ہو۔

رائٹرز کا کہنا ہے کہ اہلکار نے کہا کہ فلاڈیلفی کوریڈور پر کسی بھی قسم کے عارضی انتظامات لازمی طور پر اسرائیل کے 27 مئی کے متن اور بائیڈن کے پیش کردہ خاکے کے مطابق ہوں گے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے توثیق کی ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ اس تجویز میں غزہ کے لوگوں کے لیے “بڑے پیمانے پر اور فوری فوائد” شامل ہیں اور اس میں حماس کے کئی پہلے کے مطالبات شامل ہیں۔

مصر میں سیکورٹی حکام کے دو ذرائع نے کہا کہ اسرائیل اور حماس اسرائیلی انخلا کے علاوہ تمام شعبوں میں اختلافات کو حل کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔

نیتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو ایک بیان میں فلاڈیلفی کوریڈور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے جنگی مقاصد میں “جنوبی سرحد کو محفوظ بنانا” شامل ہے ۔

مصر کی سرکاری انفارمیشن سروس نے تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر اختلافات کے بارے میں رائٹرز کے سوالات کے جواب میں حالیہ سرکاری بیانات کی طرف اشارہ کیا جن میں قاہرہ اور دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مسلسل دباؤ پر زور دیا گیا تھا۔

قطر کے بین الاقوامی میڈیا آفس نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن قطری وزیر اعظم کی بلنکن سے بات چیت کے بعد منگل کو دیر گئے جاری کئے گئے اس بیان کی طرف اشارہ کیا، جس میں غزہ میں جنگ بندی کے حصول کی کوششوں پر زور دیا گیا تھا۔

رائٹرز کے سوالات کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے بلنکن کے عوامی بیانات کا حوالہ دیا۔

فلاڈیلفی کوریڈور

غزہ اور مصر کے درمیان رفح بارڈر کراسنگ کے ساتھ فلاڈیلفی کوریڈور کے سرحدی علاقے پر کنٹرول قاہرہ کے لیے خاص طور پر ایک حساس معاملہ ہے۔

رائٹرز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق مصری سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ مصر فلاڈیلفی راہداری میں مزید حفاظتی اقدامات کے لیے تیار ہے لیکن وہاں اسرائیلی فوجیوں کی موجودگی کو مسترد کرتا ہے۔

اسرائیل نے مئی میں اسٹریٹجک کوریڈور کا کنٹرول یہ کہتے ہوئے اپنے قبضے میں لے لیا تھاکہ حماس اس راہداری کو ہتھیاروں اور ممنوعہ مواد کو غزہ کی سرنگوں میں اسمگل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اسرائیلی پیش قدمی کے نتیجے میں رفح کراسنگ بندہوگئی، غزہ میں داخل ہونے والی انسانی امداد کی مقدار میں نمایاں کمی ہوئی ، طبی بنیاد پر زیادہ ترانخلاء رک گیا اور مصر کو غزہ کی اس واحد سرحدی گزرگاہ تک رسائی کے لئے، جس پر اسرائیل کا براہ راست کنٹرول نہیں تھا،ثالثی کے اس کے ممکنہ کردار سے محروم کر دیا گیا۔

رائٹرز کے مطابق مصر کا کہنا ہے کہ اب جب غزہ میں اسمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والی سرنگوں کو بندیا تباہ کر دیا گیا ہے، رفح پر فلسطینیوں کی موجودگی کو بحال کیا جانا چاہیے، اوریہ کہ فلاڈیلفی کوریڈور کو 1979 کے مصر اسرائیل امن معاہدے کے تحت بفر زون قرار دیا گیا ہے ۔

حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ راہداریوں کے ساتھ اسرائیلی فوج کی موجودگی اسرائیل کے مسلسل قبضے کے مترادف ہوگی جس کے نتیجے میں شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت رک جائےگی۔

قیدی اور امن

حماس کے دو اہلکاروں نے رائٹرز کو بتایا کہ امریکہ کےاختلافات دورکرنے سے متعلق منصوبے، برجنگ پروپوزل میں “مستقل جنگ بندی کی تجویزشامل نہیں ہے”۔

بائیڈن نے مئی کی تجویز میں کہاتھا کہ ایک عارضی جنگ بندی عداوتوں کا مستقل خاتمہ بن جائے گی، “جب تک حماس اپنے وعدوں پر قائم رہتی ہے۔

ایک مغربی سفارت کار اور حماس کے دو عہدیداروں نے کہا کہ اس وقت ایک اہم مسئلہ یہ اسرائیلی موقف ہے کہ وہ جن قیدیوں کو رہا کرتا ہے انہیں فوری طور پراسرائیل، مغربی کنارے یا غزہ سے باہر جلاوطن کر دیا جائے۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایک عہدیدار نے بتایا “اس کی روشنی میں حماس نے امریکی-اسرائیلی تجویزکو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔”

جنگ بندی کے معاہدے کے لیے تین مرحلوں کا فریم ورک دسمبر کے آخر سے میز پر ہے، لیکن اسرائیل اور حماس کے درمیان اہم تفصیلات پر متعدد تنازعات نے معاہدے کو ناممکن بنا دیا ہے۔

امریکہ، قطر اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ میں اسرائیل کی 10 ماہ سے جاری مہم کو ختم کرنے اور 7 اکتوبر کو حماس اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں پکڑے گئے بقیہ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے مذاکرات جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

غزہ جنگ 7 اکتوبر کو شروع ہوئی جب حماس کے مسلح ارکان نے اسرائیلی کمیونیٹیز اور فوجی اڈوں پردہشت گرد حملہ کردیا تھا جس میں اسرائیل کے اعداد وشمار کے مطابق، تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 کے قریب کویرغمال بنایا گیا تھا فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق غزہ میں اب تک 40,000 سے زیادہ فلسظینی ہلاک ہو چکے ہیں۔