جبری گمشدگی کے عالمی دن کے موقع پر بھی اہلخانہ بلوچ گمشدہ افراد پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں کو دفنا رہے ہیں – این ڈی پی

118

مسلح تنظیموں کی کاروائی کے رد عمل میں ریاست پاکستان اقوا م متحدہ کے رکن کی حیثیت سے دستخط کردہ نقاط کی خلاف ورزی کر رہی ہے – این ڈی پی

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ سر زمین میں پانچویں انسرجنسی کے حالیہ صورتحال میں بڑی حد تک تیزی اور شدت میں اضافہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے جس سے ریاستی فورسز بھی رد عمل میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے جبر و تشدد کے پالیسی کو مزید بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ ماروائے عدالتی قتل یا کسی شہری کو جبری گمشدہ کرنا عالمی منشور برائے انسانی حقوق کے سنگین خلاف ورزیوں میں شمار ہوتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک ریاست کی حیثیت سے بین الاقوامی انجمن اقوام متحدہ کا ممبر ہے اور اقوام عالم سے منظور شدہ چارٹر یونیورسل ڈیکلیریشن فار ہیومن رائیٹس 1948 کو دستخط بھی کر چکا ہے کہ وہ ہر سطح میں اسکا پابند رہے گا، حتیٰ کہ ریاستی آئین کے آرٹیکل (10-a) میں بھی لکھا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 61 کے تحت چوبیس گھنٹوں کے اندر ملزم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے مقدمات کی مناسب سماعت کا مکمل انصاف پر مبنی مواقع فراہم کرے گا مگر ریاستی پالیسیوں کے مرعون منت جبری گمشدگی کے عالمی کے موقع پر بلوچ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں وصول کر کے دفنا رہے ہیں جبکہ نام نہاد بلوچ پارلیمان نمائندگان ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں مسلح کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کی پالیسیوں کی حمایت کر رہے ہیں مگر مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے کے عمل پر خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ان حالات میں مسلح تنظیموں کے رد عمل میں بے گناہ، معصوم اور جبری طور پر لاپتہ افراد کو بغیر مقدمات کی سماعت کے ماورائے عدالتی قتل انسانیت سوز عمل ہے جو خود اپنے اندر نہ صرف عالمی منشور بلکہ ریاستی آئین کے خلاف بھی مجرمانہ عمل ہے۔ مسلح تنظیم نہ ریاست کے آئین کے پابند ہیں اور نہ ہی وہ اقوام متحدہ کے ممبر ہیں لہذا موجودہ ریاست اور مسلح تنظیم کے عملی کاروائیوں میں واضح تفریق ہونا چاہیے۔ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کر سکتا لہذا پچیس اور چھبیس اگست کے مسلح کاروائیوں کے رد عمل میں خضدار، حب سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مسخ شدہ لاشوں کا ملنا جن میں چار کی شناخت جبری طور پر گمشدہ کئے جانے والے بلوچ سیاسی کارکنان کے ہوئی ہے جو نا صرف قابل مذمت ہے بلکہ انسانی حقوق کے پامالیوں کی بد ترین مثال ہے اس لئے ریاست اپنے رد عمل پالیسی پر نظرثانی کر ے بصورت دیگر اگر ریاست نا اہل حکمرانوں کے فیصلوں پر گامزن ہو کر بلوچ نسل کشی میں اضافہ کرتا ہے تو اس کے لئے پورے خطے میں سنگین اور بھیانک نتائج آئندہ دیکھنے کو ملیں گے جو مزید انتشار اور خلفشار کا سبب بن کر ریاست کا شیرازہ بکھیر دے گا۔