بلوچ راجی مُچی ۔ شاہ محمد مری

389

بلوچ راجی مُچی
مصنف: شاہ محمد مری
دی بلوچستان پوسٹ

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اُس کی بلوچ یک جہتی کمیٹی نے بہت تدبر سے دو کمال کام کیے:
1۔ قومی سطح پر آل بلوچ اجتماع کا تصور
2۔ اس اجتماع کے لیے گوادر کا انتخاب
بلوچ راجی مچی یا بلوچ قومی اجتماع دراصل یوسف عزیز مگسی اور عبدالعزیز کرد کی طرف سے منعقد کردہ اُس اجتماعات کی پیروی ہے جو انہوں نے 1932میں حیدر آباد اور 1933میں جیکب آباد میں منعقد کیے تھے ۔یہ قومی اجتماعات تاریخ میں ”آل انڈیا بلوچ کانفرنس“ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ سو سال گزرنے کے بعد اس آئیڈیا کو دوبارہ زندہ کرنا بہت خوش آئند بات ہے ۔ عوام جس قدر زیادہ تعداد میں جمع ہوں اتنا فائدہ ہوتا ہے ؛ سماج کو بھی ، بلوچ قوم کو بھی اور مجموعی طور پر سیاست کو بھی۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ بہت بڑے بلوچستان میں مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کے بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا کیا گیا ۔آج تک بلوچ مقامی طور پر اپنے اپنے قبائلی علاقوں میں سرگرمیاں کرتے رہے ۔ وہ ایک دوسرے سے صرف جغرافیائی طو رپر ہی کٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ سیاسی اور معاشی طور پر بھی ان میں روابط کم تھے ۔ بلوچ یک جہتی کمیٹی نے پورے بلوچ کو بہ حیثیت قوم اکٹھا کردیا۔ ساری قبیلوی سرحدیں توڑ دیں ، ساری علاقائی دوریاں ختم کردیں ، اور کامیابی کے ساتھ پوری قوم کو ایک کردیا۔ اور یہ کام لوگوں کی اپنی بھر پور شمولیت کے ساتھ ہوا۔ مشرق میں کوہِ سلیمان کے بلوچوں نے طویل سفر کر کے اور سرکاری رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں میل دور مغرب میں کوہِ باتیل تک پہنچنے کی تکالیف رضا کارانہ انداز میں جھیلیں ۔ دور ڈیرہ غازیخاں کے بزدار بلوچ نے کھیتران اور مری بلوچ کے علاقوں میں سے گزر کر سبی وڈھاڈر سے ہوتے ہوئے بولان و دشت عبور کرتے ہوئے کوئٹہ پہنچنا تھا ۔ اور وہاں سے مستنگ و منگوچر اور خضدار و کیچ سے گزر کر گوادر جانا تھا ؛ ایک نعرے کے تحت، ایک جذبے تلے اور ایک شناخت کے بیج بوتے ہوئے ۔ مبالغہ نہ ہو تو یہ اس صدی کا بڑا آئیڈیا تھا ۔اس بڑے قومی عوامی کام میں نہ سردار رکاوٹ ڈال سکا، نہ قبائلی تفاخر اس میں حائل ہوسکا اور نہ ہی زمینی دوری اور فاصلوں نے اس جذبے میں کمی پیدا کی ۔ سارا وطن ایک ہوگیا، سارے بلوچ واحد بلوچی شناخت کے ساتھ ایک ہوگئے ۔

شاید سو سال بعد کی ترقی یافتہ دنیا میں اس بات کی اہمیت نہ رہے مگر آج اس فیوڈل معاشرے کے پس منظر میں یہ بات بہت اہم ہے کہ سارا قبائلی بلوچ ، خواتین کی قیادت میں چلنے کے لیے تیار ہوا۔ اُس کی کال پہ خود کو فاشسٹ اور متشدد سرکار کی متوقع گولیوں کے حوالے کرنے پہ تیار ہوا ۔ ایسی خواتین جنکی عمریں چالیس سال تک بھی نہیں ہیں۔ اور نہ مروج سماجی مقام و سٹیٹس میں وہ کوئی خان زادیاں یا سردارزادیاں ہیں۔ ایسی خواتین جن کے پاکیزہ سیاسی موقف نے سفید ریشوں کو اُن کے ساتھ چلنے پہ آمادہ کیا، تجربہ کار اور بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والوں کو اُن کی قیادت قبول کرنے پہ ہنسی خوشی راضی کیا۔ سیاسی معجزوں میں شمار ہو گا کہ خواتین سیاسی ورکرز کی قیادت میں شرق و غرب کا بلوچ ،پیرو ورنا بلوچ، مردو زن بلوچ ، قبائلی و شہری بلوچ، اور ماہی گیر و مڈل کلاس بلوچ یوں آتش فشانی ابھار کے ساتھ باہم ایک ہوگیا۔ پڑوسی اقوام میں اس کا تصور تک ناممکن ہے ۔

اس ”مچی “ (اجتماع ) کے لیے گوادر کا انتخاب سیاسی داﺅ پیچ میں کمال مہارت کی بات تھی ۔ وہ گوادر جسے معلوم نہیں ہمیشہ کے لیے فروخت کیا گیا؟ یا تیس چالیس برس کے لیے رہن رکھا گیا ؟۔ اس گوادر کو واپس کلیم کرنا ، اس کے مالک کے بطور بلوچ کو سامنے لانا اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کی قوت بلوچ کو قرار دینا سیاست میں کمال نہیں تو کیا ہے ؟۔

مُچی کے مقام کے بطور گوادر کو سلیکٹ کرنا محض شہر گوادر کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ پورے بلوچ ساحل و سمندر کی ملکیت کا معاملہ ہے ۔ ایسا اہم بلوچ علاقہ جس میں درجن سے زیادہ بندرگاہیں ہوں، جنہیں انگریز نے اپنے سامراجی مقاصد کے تحت ملکوں میں بانٹ دیا ہو، اس پورے ساحلی و سمندری علاقے پر سو سال گزرنے کے بعد واشگاف انداز میں بلوچ ملکیت کے واحد نعرے پر سارے بلوچوں کو مجتمع کرنا سٹریٹجی اور ٹکٹکس میں ہنر مندی کا عروج ہے ۔

گوادر محض ایک شہر اور بندرگاہ نہیں ہے ۔ یہ پورے خطے میں گہرے سمندر کی واحد بندرگاہ ہے ۔ اس ”ڈیپ “سی رپورٹ پہ بڑے اخراجات کیے بغیر بڑے سے بڑا تجارتی بحری جہاز آجا سکتا ہے ۔
سمندر بین الاقوامی تجارت اور رسل و رسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ اس لیے گوادر نئی دنیا کے لیے بلوچ کا گیٹ وے ہے ۔ اسی کی قیادت میں بلوچستان نے دنیا سے لین دین کرنی ہے ۔ یوں ماہ رنگ نے نئی دنیا سے بلوچ مکالمے کی ابتدا کردی۔ کتنا حسین تخیل ہے یہ۔

گوادر ماہی گیروں یعنی محنت کش طبقے کا علاقہ ہے ۔ یہاں مُچی منعقد کرنا محنت کی عظمت کو تسلیم کرنے اور اس کی قیادت میں چلنے کا اظہار بھی ہے ۔گوادر میں کوئی قبائلی عصبیت موجود نہیں۔ یہ کسی خان و سردار اور شہزادے کا باجگذار علاقہ نہیں ہے ۔یہ آزاد انسانوں کا علاقہ ہے جہاں کالے گورے ، امیر غریب اور نام نہاد اصلی نقلی کا فرق موجود نہیں ہے ۔ یہی گوادری سماج مجموعی طور پر بلوچ سماج کا مستقبل ہوگا۔ اس حقیقت کو پورے بلوچستان میں متعارف کروانا بلوچ یک جہتی کمیٹی کی تخلیقی سوچ کی معراج ہے ۔

توقع کے عین مطابق اس مُچی کو ناکام کرنے کے لیے بہت فسطائیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ساری شاہراہیں سرکار کی طرف سے بند کردی گئیں ۔ قافلوں پہ بہت تشدد کیا گیا۔مچی میں شرکت کے لیے جانے والے کاروانوں کو ڈائریکٹ گولیاں مار کر شہید اور زخمی کیا گیا ۔ انہیں طبی سہولتوں تک پہنچنے کی راہیں بند کردی گئیں۔ جولائی کی شدید ترین گرمی میں سایہ اور پانی سے محروم رکھا گیا ۔ اندھا دھند گرفتاریاں کی گئیں ۔ اور بے سروپا پُروپیگنڈہ کا نشانہ بنایا گیا۔
سرا سر ناجائز:
* اس لیے کہ اجتماع کی آزادی ایک آئینی حق ہے ، کسی شہری کو اس سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ۔
* تقریر و تحریر کی آزادی ایک بنیادی انسانی حق ہے ، اس حق کو چھنیا نہیں جاسکتا ۔
* یہ کوئی خفیہ اور زیر زمین سرگرمی نہیں ہے ۔ اس کے مقاصد چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ کسی بھی بہانے سے آپ اس سرگرمی کو غیر آئینی قرار نہیں دے سکتے۔
* سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جنگی کارروائی نہیں بلکہ ایک ”پُر امن “سیاسی ایکٹوٹی ہے ۔ اس میں کوئی بم بارود کی بات نہیں تھی۔ عام شہریوں کا ایک عظیم اجتماع تھا جس کے مطالبات تھے ، موقف تھا، نعرے تھے ، بینر اور پوسٹر تھے ، ترانے اور تقریریں تھیں۔ ہزاروں مردوں عورتوں کے اس پُر امن اجتماع پہ استبدادی کریک ڈاﺅن کا کوئی جواز بنتا ہی نہ تھا ۔
ایک سیاسی معاملے کو سیاسی طور پر ہی حل کرنا ہوتا ہے ۔
سیاسی مسئلے کا جنگی حل بالکل موجود نہیں ہے ۔
اور کسی مسئلے کے سیاسی حل کے لیے مذاکرات کے راستے سے گزرتا ہے ۔
مذاکرات کے بغیر بلوچستان کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے خواہ آپ ہزار سال تک جنگ کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔