بلوچستان میں بلوچ بطور قوم اجتماعی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ایچ آر سی پی

256

جبری گمشدگی کے عالمی دن پر تربت میں انسانی حقوق کمیشن کے زیر اہتمام ایچ آر سی پی کے ریجنل آفس میں پروگرام منعقد کیا گیا جو دو حصوں پر مشتمل تھا۔

پروگرام کے پہلے حصے میں پاکستان اور دنیا کے ان ممالک جہاں لوگوں کو سیاسی اور بنیادی حقوق پر آواز اٹھانے کی پاداش میں جبری گمشدگی کا شکار کیا جاتا ہے، کے بارے میں پروفیسر غنی پرواز، خان محمد جان گچکی، بشیر دانش، محمد کریم گچکی، سنعیہ بلوچ، ڈاکٹر سمی پرواز، گلزار دوست، شریف شمبے زئی، شگرا للہ یوسف و دیگر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ جبری گمشدگی بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں شامل یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے اور ناہی اقوام متحدہ انسانی حقوق پر اپنے مسلمہ اصولوں کی پاسداری میں سنجیدہ ہے انہی وجوہات کی بنا پر بلوچستان میں بلوچ بطور قوم اجتماعی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کا سلسلہ 70 کی دہائی میں اسد مینگل اور احمد شاہ کرد کی جبری گمشدگی کے ساتھ شروع کیا گیا اور اس سلسلے میں شدت سال 2000 میں پیدا کی گئی جس میں اب تک وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 40 ہزار سے زائد بلوچ جبری اغوا کیے گئے ہیں۔

انہوں نے پاکستان کی حکومت اور اقوام متحدہ پر جبری اغوا فوری روکنے اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کی اس سنگین انسانی مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اس عمل کو مزید تقویت دینے کا سبب بن رہی ہے۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں ایچ آر سی پی کی جانب سے خواتین اور مرد کارکنان نے جبری گمشدگی کے خلاف ایچ آر سی پی کی آفس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ کارکنان نے جبری گمشدگی کے خلاف پلے کارڈ اور بینر اٹھائے نعرہ بازی کی اور گمشدہ افراد کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر پروفیسر غنی پرواز نے جبری گمشدگیاں روکنے کے علاوہ ماورائے عدالت شہریوں کا قتل روکنے کا مطالبہ کیا اور عالمی اداروں سے ایسے واقعات پر ایکشن لے کر ان کے روک تھام کی اپیل کی۔