’اس بار کوئٹہ کی کسی دکان سے پاکستان کے پرچم اور بیجز نہیں ملے‘ – رپورٹر ڈائری

949

بچوں کو اسکول سے ایک مکمل فہرست فراہم کی گئی تھی جس میں 14 اگست پر یومِ آزادی پاکستان کی تقریب کے لیے درکار اشیاء شامل تھی۔

اس فہرست میں بچوں کے لیے فورسز کی علامتی وردیاں، پرچم، بیجز، پاکستان کےجھنڈے والے غبارے اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔

میں 11 اگست کو بچوں کے ساتھ کوئٹہ کی مشہور پھول گلی موتی رام روڈ پہنچا۔ یہ بازار کوئٹہ ہی نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں یوم آزادی کے موقعے پر پرچم، بیجز اور دیگر اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے مشہور ہے۔

بازار میں داخل ہونے کے بعد یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ یہاں کسی بھی دکان میں 14 اگست کی مناسبت سے کوئی چیز دستیاب نہیں تھی۔

اب میری پریشانی بڑھ گئی کیوں کہ شہر میں جگہ جگہ دکانوں میں چکر لگانے کے بعد جب ناکامی ہوئی تھی تو میں آرچر روڈ پر کوئٹہ کے بڑے اسٹیشنری کے بازار پہنچا تھا۔

پھول گلی میں جب کاریگروں سے پوچھا کہ بیج اور جھنڈے کہاں ہیں تو کسی نے دکان کی آخری منزل کی جانب اشارہ کیا تو کسی نے کہا کہ تہہ خانے میں موجود ہیں۔

بڑی تگ و دو کے بعد اتنی بڑی اسٹیشنری کی مارکیٹ سے مجھے بچوں کے لیے صرف دو بیج ہی مل سکے۔ ایک کاریگر سے دریافت کہ اس سال سامان کیوں نہیں آیا تو وہ اس نے گھبراہٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بار حالات خراب ہیں۔

ساتھ ہی کھڑ ے ایک اور صاحب نے کہا کہ صبح ہی بچوں کے لیے یومِ آزادی سے متعلق پرچم بیجز اور دیگر سامان تلاش کررہا ہوں اس بار شہر میں کسی بھی دکان یا ٹھیلے پر کوئی چیز بھی نہیں مل رہی۔ اسکول والے تنگ کررہے ہیں کہ بچوں کو جھنڈوں اور بیجز کے بغیر اسکول نہ بجھوایا جائے۔

ماضی میں یکم اگست ہی سے شہر میں جھنڈیوں کی بہار دکھائی دیتی تھی۔ ہر کوئی تیاریوں میں مصروف نظر آتا مگر اس بار صورتِ حال اس کے یکسر برعکس نظر آئی۔

بلوچستان میں دو دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری شورش کے باعث ہرسال ہی کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں پاکستان کے یومِ آزادی کے موقعے پر تخریب کاری کے واقعات رونما ہوتے آئے ہیں۔ مگر ان مخصوص حالات کے باوجود صوبائی حکومت سخت سیکورٹی میں یوم آزادی کی تقاریب منعقد کرتی رہی ہے۔

ان تقریبات میں ہر سال نہ صرف عوام بلکہ پرچم اور بیجز فروخت کرنے والے کاروباری افراد کو بھی سخت سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے مگر اس بار شہر میں ٹھیلوں پر کوئی پرچم فروخت کرنے والا ہی نہیں تھا تو حکومت سیکیورٹی کسے فراہم کرتی؟

کوئٹہ میں گزشتہ پانچ سے برسوں کے دوران یوم آزادی کے موقعے پر بعض نوجوانوں کی ٹولیاں “جشن آزادی ” کی آڑ میں غل غپاڑا کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ نوجوان سنو اسپرے، پانی سے بھرے غبارے، تیز آواز والے باجے اور ون ویلنگ سے چراغاں دیکھنے والے شہریوں کو پریشان کرتے تھے۔

لیکن اس بار سڑکوں سے یہ ٹولیاں بھی غائب تھیں۔ اندرونِ شہر سڑکیں شام تک سنسان تھیں، بازار بند تھے اور جگہ جگہ سیکیورٹی فورسزکے اہلکار تعینات تھے۔

بلوچستان میں یومِ آزادی کا سب سے بڑا جشن ’نواب اکبر بگٹی‘ اسٹیڈیم میں منعقد ہوا جس کے مہمان خصوصی پاکستان کے ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار تھے۔

تقریب میں موسیقی، ٹیبلوز، ملی نغمے اور مختلف پروگرامز ترتیب دیے گئے تھے۔اس تقریب سے متعلق سوشل میڈیا ویب سائیٹ پر صارفین نے مختلف ویڈیو شئیر کی ہیں۔

میں نے ٹک ٹاک کے ویڈیو میں ایک نواجون کو یہ کہتے سنا کہ “یہ گراؤنڈ خالی ہے، بلوچستان کے لوگوں کو اس طرح کی تقریبات اور موسیقی نہیں بلکہ اپنا حق چاہیے ۔‘‘

ایک اور ویڈیو میں چند نوجوان ڈپٹی وزیر اعظم کے تقریر کے دوران ان کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں۔

اس سے قبل 13 اگست کو یومِ آزادی کی مرکزی تقریب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے پر جوش خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ، “بلوچ نوجوانوں کو سازش کے تحت ریاست سے دور کیا جارہا ہے۔”

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جشن آزادی کے موقعے پر اپنے لوگوں سے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ “آئیں آپ پہاڑ سے اتر جائیں ہم آپ کو گلے لگائیں گے۔ یہ ریاست کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ 14 اگست کی صبح بلوچستان اسمبلی کے سبزاہ زار پر پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار تھے۔

یومِ آزادی سے پہلے امن و امان کی خراب صورتِ حال

رواں سال 14 اگست سے قبل ہی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال خراب رہی ہے۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 11 اگست سے ہی تخریب کاری کے واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے تھے۔ 11 اگست کو کوئٹہ میں سریاب روڈ پر فورسز کی چیک پوسٹ پر دستی بم حملے میں تین افراد زخمی ہوگئے۔ خضدار میں بھی ایک چیک پوسٹ پر حملہ ہوا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

کوئٹہ میں گوالمنڈی تھانہ پر 12 اگست کو نامعلوم افراد نے دستی بم سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو اہلکار زخمی ہوگئے۔

اسی روز منگچر سیندک پروجیکٹ کے لیے سامان لے جانے والے ٹرک پر حملہ کیا گیا ایک اور واقعے میں ضلع بارکھان میں یوم آزادی کی تیاروں میں مصروف لیویز اہلکاروں کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔ 12 اگست کو مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ڈپٹی کمشنر پنجگور زاکر بلوچ ہلاک جبکہ دو افراد زخمی ہوگئے۔

اگلے روز 13 اگست کو کوئٹہ کے مرکزی علاقے لیاقت بازار میں چائینہ مارکیٹ کے قریب دستی بم حملے میں ایک شخص ہلاک جب کہ 6 زخمی ہوئے۔ اسی شب یومِ آزادی کی تقریب کے قریب دو راکٹ داغے گئے جس کے باعث خاتون سمیت دو افراد ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے ۔

پاکستان کے یومِ آزادی 14 اگست کی شام کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک دستی بم حملے میں ایک شخص ہلاک جبکہ 12 افراد زخمی ہوگئے۔ گیارہ اگست سے 14 اگست تک مختلف واقعات میں 5 افراد ہلاک جبکہ دو درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔