بلوچستان ضلع آواران سے 12 جون 2024 کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے دلجان ولد اللہ بخش اہلخانہ نے کوئٹہ پریس کلب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ایک مقتل گاہ کا روپ دھار چکا ہے جہاں انسان حیوانوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آئے روز جبری گمشدگی کے واقعات، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی سے بلوچستان کے عوام نفسیاتی، جسمانی اور ذہنی مریض بن چکے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ جیتے جاگتے انسانوں کی گمشدگی اور قتل پر انسانی حقوق کے چمپئین چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا بلوچستان کے عوام انسان نہیں ہے؟ کیا دنیا کے انسانی قوانین بلوچستان پر لاگو نہیں کئے جاسکتے؟ کیا انسانی حقوق کے دعویدار تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں یا حکومتیں اتنی طاقت اور اختیارات نہیں رکھتی کہ وہ زندہ انسانوں کو مردہ انسان میں تبدیل کرنے کے خلاف کوئی اقدام اٹھائیں؟ کیا بلوچستان کے عوام ساری زندگی اس اذیت ناک درد کے ساتھ زندگی گزاریں گے؟
انہوں نے کہا کہ کیچ ہو یا بولان، کراچی ہو یا حب چوکی، آواران ہو یا نوشکی، نصیر آباد ہو یا ڈیرہ بگٹی، کوہلو کاہان ہو یا ڈیرہ بگٹی بلوچ کی زندگی درد ناک ہے اور اس درد کی وجوہات ہم آپکے سامنے رکھ رہے ہیں اور ہم سے قبل بھی کئی بلوچ خاندان اپنی درد کا درماں سمجھ کر اس پریس کلب کا رخ کرچکے ہیں تاکہ آپ جیسے پیشہ وار صحافی ہماری آواز کو متعلقہ اداروں کو پہنچائیں جو اس درد کے ذمہ دار ہے اور ان لوگوں کو پہنچائیں جو ہماری درد پر خاموش رہ کر اس ظلم میں برابر شریک کار ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہر شخص کی ایک درد ناک کہانی ہے۔ کسی کا بیٹا لاپتہ ہے تو کسی کا بھائی، کسی کا شوہر لاپتہ ہے تو کسی خاندان کا چشم چراغ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو کر خود کشی پر مجبور ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان پر آسیب کا سایہ ہے جو ہر طلوع ہونے والے دن ہمارے لہو کو نچوڑ کر ہمیں مختلف بیماریوں کا شکار بنارہا ہے اور ان کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو لوگوں کو جبری گمشدہ کرتے ہیں اور وہ لوگ ذمہ دار ہے جو اس ظلم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا ضلع آواران بربریت کی مثال ہے جہاں آئے روز شدت سے جبری گمشدگی کا عروج ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج کی سات گاڑیوں پر مشتمل ایک لشکر نے 12 جون 2024 کو ہمارے گھر تیرتج پر دھاوا بول کر ہمارے لخت جگر دلجان ولد اللہ بخش کو ہماری آنکھوں کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کردیا آج اس واقعے کو بیس دن سے زائد ہوگئے ہیں کہ دلجان کا کوئی علم نہیں کہ وہ کس حال میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ دلجان کی جبری گمشدگی کو سرکاری عہدیداروں کے علم میں لایا لیکن وہ آج یا کل کا بہانہ بنا کر طفل تسلی دیتے رہے جس کی وجہ سے ہم شدید پریشانی کا سامنا کررہے ہیں۔ ایک خاندان کے چشم چراغ کی گمشدگی المناک ہے اور اس المناکی نے ہمیں ذہنی و نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپکی توسط سے تمام انسان دوست لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بروز پیر مورخہ آٹھ جولائی خضدار آر سی ڈی ٹو کراچی کو احتجاجا بند کردیں گے اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے درد کو اپنا درد سمجھ کر اس احتجاجی پروگرام کا حصہ بنیں تاکہ ہمارا لخت جگر صیح سالم اپنے گھر پہنچ جائیں اور ہمیں ذہنی سکون نصیب ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپکی توسط سے اعلی عہدیداروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ دلجان کی بازیابی کے لئے اپنا انسانی کردار ادا کریں۔
پریس کانفرنس کے آخر میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ اگر دلجان کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم اپنے احتجاج میں وسعت لائیں گے۔