گوادر میں چین کے اقتصادی اور عسکری عزائم ۔ کمبر بلوچ

852

گوادر میں چین کے اقتصادی اور عسکری عزائم

تحریر: کمبر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں شامل ہونے کا خواہاں نہ ہو لیکن دنیا کی سیاست اور مفادات آج اس طرح تشکیل پا چکے ہیں کہ انہوں نے بلوچ کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچ کی زمین کو اپنی نظروں میں رکھا ہے کیونکہ بلوچ کی زمین تزویراتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

بلوچ سرزمین دنیا کے بہت سے خطوں کو آپس میں ملاتی ہے یا کہ اپنے وسیع سمندر کے ذریعے دنیا کے لیے عسکری اور تجارتی راستوں کو مختصر بناتی ہے۔ خطے کے بہت سے ممالک بلوچ سمندر کو بطور تجارتی گزر گاہ اور عسکری مستقر کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا کی کچھ بڑی طاقتیں اس بات کی خواہاں ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح بلوچستان کو اپنے زیرِ تصرف رکھیں، تاکہ وہ اپنے مفادات کو محفوظ بنا سکیں۔ اکسیویں صدی میں چین نے دنیا پر اپنی معاشی اور عسکری اثر سوخ بڑھانے کا آغاز کیا اور بلوچستان اُن خطوں میں شامل ہے جہاں چین اپنا عسکری تسلط قائم کرکے دوسرے طاقتوں سے سبقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

موجودہ چین چیئرمین ماؤ کے برعکس سرمایہ دارانہ طرزِ معیشت کو اپنا کر دنیا بھر میں اپنا سیاسی، عسکری اور معاشی تسلط جمانے کے لیے جارح پالیسیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور چین دنیا پر اپنے معاشی و عسکری تسلط کے لیے بلوچ سرزمین کو استعمال کرنے کے لیے واضح طور پر استعماری حربے استعمال کر رہا ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے اور اس کے ساتھ ایک ترقی پذیر عسکری طاقت بھی ہے۔ اپنی معاشی و عسکری طاقت کو بڑھانے اور مختلف خطوں پر اپنا تسلط جمانے کے لیے اُسے تزویراتی لحاظ سے اہم خطوں پر براجمان ہونا ہوگا کہ ان کے ذریعے ہی پورے دنیا پر معاشی اور عسکری تسلط کو برقرار رکھ سکے۔

اسی بنیاد پر چین نے پاکستان کے ساتھ سلک روٹ کے تصور پر اکیسوی صدی کے اہم ترین منصوبے بلٹ اینڈ روڈ اینشیٹو کے اہم حصے چین پاکستان اقتصادی راہداری پر دو ہزار تیرہ میں معاہدہ کیا۔

اس اقتصادی راہداری کی فعالیت سے چین گوادر پورٹ کے ذریعے یورپ ، مشرقِ وسطیٰ اور دوسرے خطوں تک رسائی حاصل کرے گا اور اس کے ساتھ ہی اسی روٹ کے ذریعے دنیا کی ایک تہائی آبادی پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر سکتا ہے۔ اس اقتصادی راہداری کے ذریعے ایک جانب وہ ایشیا سے منسلک ہوگا، وہیں دوسری جانب وہ یورپ اور افریقی ممالک سے منسلک ہو کر دنیا پر اپنا معاشی اور عسکری تسلط منظم کر سکتا ہے ۔

چین، گوادر سمیت اُن خطوں یا تزویراتی لحاظ سے اہم جگہوں پر رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جِن سے راہیں پیدا کرکے معاشی اور عسکری تسلط کو بڑھا سکے۔

چین کے بھارت کے ساتھ دیرینہ تنازعات چل رہے ہیں اور گوادر میں عسکری مستقر بناکر بھارت پر کم وقت میں فوجی دباؤ بنا سکتا ہے۔ چین گوادر میں عسکری مستقر کا انتخاب اس لئے بھی کرتا ہے کہ آبنائے ہرمز (سمندری گزرگاہ) گوادر سے خاصی قریب ہے اور آبنائے ہرمز سے دنیا کا تیس فیصد تیل گزرتا ہے۔ یہاں اگر چین عسکری مستقر بنائے تو تیل پر منحصر دنیا کی معیشت، جنگی حالات میں اس روٹ پر قبضہ کرکے چالیس فیصد تیل کے سپلائی لائن کو بند کر سکتا ہے یا اسے سبوتاژ کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ بات اہمیت اختیار کرتی ہے کہ یہاں (گوادر میں) چین کو اگر اقتصادی فوائد نہ بھی مل سکے تو اس کے باوجود عسکری لحاظ سے اتنے فائدے مل سکتے ہیں کہ وہ اس سرزمین اور اس روٹ سے کسی بھی صورت میں دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بلوچستان کی ضرورت چین کے لیے اقتصادی سے زیادہ عسکری نقطہ نگاہ سے ہے۔ گوادر میں عسکری مستقر ( نیول بیس ) بنانے کی صورت میں وہ پوری خطے پر اپنا اثرو رسوخ قائم کر سکتا ہے۔ مغربی ممالک سے تصادم کی صورت میں خطے پر کافی حد تک چین اپنا اجارہ قائم کر سکتا ہے۔

آج کی دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے، علاقائی طاقتیں سر اٹھا رہی ہیں اور جنوبی ایشیا میں جتنے ممالک اور علاقائی طاقتیں موجود ہیں ان میں ایک علاقائی طاقت بھارت ہے۔ دنیا کی جو طاقت چین کی توسیع پسندی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے وہ چین کے مقابلے میں بھارت کو سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگرچین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ اور سلک روٹ پائے تکمیل تک پہنچے تو چین سمندری اور خشکی کے راستوں کے ذریعے بھارت کا گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کیونکہ مختلف اہم خطوں پر چین بندرگاہیں بنانے کے معاہدے کر رہا ہے۔

چین ایک مکمل استعماری طاقت کے طور پر بلوچستان میں اپنی موجودگی بڑھا رہا ہے، جس کا اولین خمیازہ بلوچ قوم کو نسل کُشی کی صورت ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہونی والی بلوچ قومی تحریک کا ابھار چینی استعماری مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ اس لیے چین حتیٰ الوسعیٰ کوشش کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کو بلوچ قومی تحریک آزادی کو ختم کرنے میں مدد و تعاون کرے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلٹ اینڈ روڈ اینشیٹو کا اہم حصہ ہے، اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری کامیاب ہو جائے بلٹ اینڈ روڈ اینشیٹو کا تصور حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ اگر یہ منصوبہ نہ بن سکے یا ناکام ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلٹ اینڈ روڈ اینشیٹو کامیاب نہیں ہوگا لیکن جو فوائد چین حاصل کرنا چاہتا ہے یا چین پاکستان اقتصادی راہداری سے جو فوائد چین کو مل سکتے ہیں، وہ محض ایک خواب رہیں گے۔

بلوچ قومی تحریک بلوچ قومی بقا و تشخص کی حفاظت اور قومی مڈی پر کسی بھی عالمی یا علاقائی سودے بازی کی مخالف ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری بلوچ قومی مرضی و منشا کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔اس لیے پاکستان چین کی مدد سے بلوچ قومی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے لیکن دو دہائیوں سے بلوچ نسل کشی کے باجود بلوچ قومی جہدکار سرزمین کی دفاع میں جدوجہد منظم شکل میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

قومی طاقت کے بغیر چین کے توسیع پسندانہ عزائم کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہے، قومی مزاحمت ہی ہماری بقا کا ضامن ہے اور بلوچ اپنا لہو دے گا لیکن اپنے زمین کے ایک انچ سے بھی دستبردار نہیں ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔