کیا ماسکو طالبان پر سے پابندیاں ہٹانے والا ہے؟

115

ماسکو طالبان کے خلاف پابندیاں ہٹانے پر غور کر رہا ہے، یہ بات روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے پیر کو اقوامِ متحدہ میں ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب افغان حکام نے دوحہ میں عالمی برادری کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔

روس سمیت افغانستان کے لیے بین الاقوامی نمائندے، افغانستان کے مستقبل کے بارے میں دو روزہ سربراہی اجلاس کے لیے قطر میں جمع ہوئے تھے جس میں طالبان نے اپنے خلاف پابندیاں ہٹانے پر زور دیا ہے۔

روس کے سفیر نے کہا، “(طالبان) ڈی فیکٹو حکمران ہیں۔ وہ رکنے والے نہیں ہیں، اور ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ آپ کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ اسی طرح نمٹنا ہوگا کیونکہ، چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں، یہ تحریک اب ملک چلا رہی ہے، آپ اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔

واسیلی نبینزیا نے مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ میں آپ کو قطعی طور پر نہیں بتا سکتا ہم انہیں روس کی جانب سے عائد پابندیوں کی فہرست سے نکالنے سے کس حد تک دور ہیں لیکن میں نے اس بارے میں کچھ بات چیت سنی ہے۔

کابل میں طالبان کی حکومت کو 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کسی دوسری حکومت نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک کی طرح روس نےبھی طالبان پر پابندیاں برقرار رکھی ہیں جن میں اسےدہشت گرد گروپ کی حیثیت سے نامزد کیا گیا ہے۔

روس نے طالبان کو افغانستان کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اس نے کابل پر اس گروپ کے قبضے کے دوران اور اس کے بعد آج تک، کابل میں اپنا سفارت خانہ کھول رکھا ہے۔

طالبان نے افغانستان میں اسلام کی سخت تشریح کا نفاذ کیا ہے، خواتین کو ایسے قوانین کا نشانہ بنایا گیا ہے جنہں اقوام متحدہ نے “صنفی امتیاز” سے تعبیر کیا ہے۔

طالبان وفد کے سربراہ، ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نےسوال کیا کہ کیا غیر ملکی حملوں اور مداخلت کے نتیجے میں تقریباً نصف صدی تک جنگوں اور عدم تحفظ کے بعد جاری پابندیاں “منصفانہ عمل” ہیں۔

نبینزیا پیر کے روز اس وقت بات کر رہے تھے جب روس نےجولائی کے مہینے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی گردشی صدارت سنبھالی ہے۔

دوحہ اجلاس

اتوار کو شروع ہونے والی کانفرنس میں افغانستان میں 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان نے بھی اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ دہرایا۔ انہوں نے خواتین پر عائد کی گئی پابندیوں کو نقطۂ نظر کا اختلاف قرار دے کر مسترد کر دیا۔

طالبان کی جانب سے مغربی ممالک سے زیادہ روابط کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔

یہ پہلی بار ہے کہ طالبان نے افغانستان سے متعلق کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ ان اجلاسوں کا سلسلہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے شروع کیا ہے جسے ’دوحہ پروسیس‘ کا نام دیا گیا ہے۔

مذاکرات کی صدارت اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکریٹری جنرل روز میری ڈی کارلو کر رہی ہیں۔

اس کانفرنس میں شریک مندوبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کی شرکت اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اہم تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی عدم شرکت اور طالبان کی شرکت پر افغانستان میں موجود خواتین کے حقوق کے کارکنوں اور افغانستان سے باہر بھی کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اقوامِ متحدہ نے رواں برس فروری میں بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس منقعد کی تھی جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ افغانستان کے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے کارکنان کی شرکت کے سبب طالبان نے اس کانفرنس میں حصہ نہیں لیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اس بار کانفرنس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو مدعو نہیں کیا۔