کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف طویل بھوک ہڑتالی کیمپ جاری

38

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں کوئٹہ میں جاری طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5498 دن مکمل ہوگئے، خاران سے سیاسی سماجی کارکنان نزیر احمد بلوچ، غلام محمد بلوچ نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست عوام کے اندر انتشار اور تضاد پیدا کرتی رہتی ہے، لوگوں کو جمع ہونے نہیں دیتی اور اگر ہونے دیتی بھی ہے تو صرف جھکنے کے لیے اس لیے قابض فوج، ریاستی فورسز، خفیہ ادارے پورے بلوچ قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچوں کو لاپتہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے کوہستان، مری، کوہلو، کاہان، مچھ بولان، مکران، خضدار، قلات، جوہان گردونواح کے شہر دیہاتوں میں آئے روز فوجی آپریشن شہری آبادیوں پر فضائی بمباری کی جاتی ہے۔ درجنوں کے حساب سے بلوچ نوجوان،بزرگوں کو شہید کیا جاتا ہے یا پھر اپنے ساتھ لے جاکر لاپتہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا بلوچ تحریک کی راہ میں جدوجہد کرنے والے عام انسان نہیں ہوتے وہ عظیم ہوتے ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ امن کا گہوارہ سر سبز و شاداب گیت گاتے سنگلاخ پہاڑوں کی سرزمین بلوچستان جس کی رعنائیوں میں ہر وقت کھونے کو جی کرتا ہے جس کے پہاڑ جب سفید چادر اوڑھتے ہیں تو حسن کی دیویاں شرما کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن ان سب خوبیوں کی ملکہ آج خون میں لت پت قتل و غارت اور ظلم و ستم کے ہچکولے کھانے پر مجبور کیوں ہے؟ آج اس وادی بہاراں میں خزاں کو زبردستی دھکیلنے اور یہ حالات پیدا کرنے والے کون ہیں؟

انہوں نے کہا اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں ذرا ماضی میں جھانکنا ہوگا کہ آیا ماضی میں یہی حالات تھے یقیناً آپ جان چکے ہونگے کہ بلوچستان کے حالات کو اس دورائے پر لاکھڑا کرنے میں کن کا حصہ ہے جن کے گناہوں کا خمیازہ پوری سرزمین بلوچستان اور اس کے باسی بھگتنے پر مجبور ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا بلوچ خون اب سب سے سستا ہوچکا ہے ہر طرف خون ہی خون بہایا جارہا ہے حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان کی حالات اس حد تک لانے میں خود حکمران ملوث رہیں ہیں کیونکہ کہ بلوچ خون بہانے والی یہ قوتیں آج بلوچ کو اٹھتے بیٹھتے خود کو بلوچوں کا ہمدرد ظاہر کرنے پر تلی ہوئی ہیں مگر شاید ان کو پتہ نہیں ہے کہ اب بلوچ کو دوست دشمن کی پہچان اچھی طرح ہوچکی ہے۔