کراچی پولیس کا اسد بٹ کو بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے سے دور رہنے کا انتباہ

163

مجھ سے بلوچ مسنگ پرسنز پر سوالات کیے اور ان سے دور رہنے کا کہا گیا – پاکستان ہیومین رائٹس کمیشن چئیرپرسن کا بی بی سی سے گفتگو-

جمعرات کو پاکستان میں آزادانہ حیثیت میں کام کرنے والے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین اسد بٹ کو کراچی پولیس پوچھ گچھ کے لیے اپنی حراست میں گلبرگ تھانے لے کر گئی جسے بعد میں تنبیہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہے-

برطانوی خبرساں ادارے بی بی سی کے مطابق ایس ایس پی کراچی وسطی ذیشان صدیقی نے بی بی سی کو اس حوالے بتایا ہے کہ اسد بٹ کو حراست میں نہیں لیا گیا بلکہ انھیں ڈی ایس پی کے دفتر میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق بلوچستان اور ریلیوں میں شرکت کے حوالے سے کچھ انٹلی جنس رپورٹس اس بارے میں ان سے پوچھ گچھ ہورہی ہے۔

بی بی سی اردو کے مطابق پولیس کے ہاتھوں گرفتاری بعد ازاں رہائی کے بعد پاکستان ہیومین رائٹس کمیشن کے چئیرپرسن اسد بٹ نے بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان سے بلوچ مسنگ پرسنز پر سولات کیے گئے اور ان سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔

ان کے مطابق انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اس مسئلے سے دور نہیں رہ سکتے۔

ان کے مطابق ان سے پوچھا گیا کہ آپ کوئٹہ گئے تھے تو انھوں نے بتایا کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں وہ وہاں نہیں جاسکے اسد بٹ کے مطابق اب پولیس کہتی ہے کہ ’وہ غلطی ہوگئی معذرت پولیس نے پوچھ گچھ کے بعد اسد بٹ کو رہا کر دیا۔

ایچ آر سی پی پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر ریاستی پالیسیوں پر سوالات اٹھاتا آ رہا ہے جبکہ اسد بٹ اس سے قبل کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کے لئے منعقد مظاہروں اور جلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں-

دوسری جانب بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں نے کراچی پولیس کی جانب سے اسد اقبال بٹ کو گرفتار کرنے اور بلوچ مسئلے پر خاموشی اختیار کرنے کے تنبیاء کو غیر قانونی عمل قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی ہے-

مزید پاکستان ہیومین رائٹس کمیشن نے تنظیم کے چئیرپرسن کی گرفتاری کے حوالے سے کہا ہے کہ اسد بٹ کی گرفتاری پاکستان میں جاری انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر آواز کو دبانے کی کوشش ہے-

واضح رہے بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے راجی مچی جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے ابتک بلوچستان سمیت کراچی سے متعدد ایسے افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو اس سلسلے میں چندہ یا کیمپئن مہم چلا رہے ہیں-