کراچی: راجی مُچی کی تیاریوں کے سلسلے میں کارنر میٹنگ، سمی دین و دیگر کی شرکت

233

رواں مہینے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ راجی مچی کی تیاریوں کے سلسلہ میں کراچی سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں آگاہی مہم شروع کی گئی ہے ۔

کراچی میں سمی بلوچ نے بلوچ علاقوں میں آگاہی مہم کے سلسلے میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں منظم ہوکر قومی بقا کےلیے راجی مچی کو کامیاب بنانا ہوگا ۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی طرف سے بلوچستان اور کراچی میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا ہے ۔

جس میں کہا گیا ہے کہ بلوچ قوم کی آج سے نہیں پچھلے 75 سالوں سے ریاست پاکستان انتہائی بےرحمانہ و شاطرانہ انداز میں نسل کشی کر رہی ہے۔ وہ فوجی آپریشنوں و جدال و قتال کی شکل میں ، لاپتہ کرکے ٹارچر و مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں ،بےروزگاری و ناخواندگی کی شکل میں ،باڈر بندش اور باڑ لگانے جیسے سازشی حربوں کی شکل میں، خون خوار سڑکوں پر حادثہ کی صورت منصوبہ بندی کے تحت قتل عام کی شکل میں، ماہی گیروں کی ٹرالرنگ مافیا کی ذریعے استحصال کی شکل میں ، بنیادی و انسانی حق علاج و معالجہ کی دانستہ فقدان کی شکل میں اور سب سے زیادہ اور انتہائی خطرناک ریاستی سر پرستی میں پورے قوم میں منشیات سرعام پھیلا کر پورے بلوچ قوم کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج اور مکمل ختم کرنے کی ریاستی منصوبہ بندی جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم اپنی قومی وجود ، شناخت ، قومی بقاء کی فناء اور معدومی کو دیکھ کر پھر بھی خوف کے مارے چپ کر خاموشی سے بلوچ قوم کی زوال کے دنوں کو اسی طرح دیکھتے رہے گے ؟کیا ہماری ماوٴں اور بہنوں کی ننگ و ناموس ،عزت و غیرت کی اب اتنی اوقات نہیں بچ چکی جس کی روزانہ کی بنیاد پر پامالی دیکھتے ہوے آنکھیں نیچے کرکے خاموش رہے ؟ کیا اپنی ماوٴں، بہنوں، بچے اور بچیوں کی ہر دن سڑکوں پر لرزہ خیز چیخ و پکار کو دیکھ کر ، سن کر ،پھر بھی وہاں سے ندامت آمیزی میں گزر کر یا پھر گھر میں بیٹھ کر اپنی ضمیر اور احساسات پر خوف و طماع کی بڑا پتھر رکھ کر اسے جگانے سے انکار کر لے ؟کیا آئے روز بےروزگاری و گھریلوں تنگ دستی کے سبب اپنے زندگیوں سے مایوس ہونے والے اپنے پھول جیسے نوجوانوں کی خودکشیوں کی خبر سن کر پھر بھی ایک دفعہ اپنی ضمیر کی صدا نہیں سننا چاہیے؟جو ہمیں بار بار بتا رہی ہے، اے بلوچ آپ کی ساحل و سائل کو غیر بلوچ بے دردی سے لوٹ مار کرکے ارب پتی اور کرب پتی بن کر شان و شوکت اور پُرآسائش زندگیاں گزار رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کی سرزمین کے مالک نوجوان درد آمیزی و مجبوری کی حالت میں دو وقت روٹی کے لیے خودکشیاں کررہے ہیں، پھر بھی آپ خاموش ہو؟ منشیات میں آج لاکھوں بلوچ نوجوان ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج ہورے ہیں، ریاست منشیات فروشوں کو کھلی چھوٹ دیکر منشیات فروشی میں ان کا معاوان ہے اور یہ عمل بھی بلوچ نسل کشی کا حصہ ہے۔ کیا اپنے نوجوانوں کو اس طرح فنا ہوتے دیکھ کر احساس درد نہیں ہورہا؟ اے بلوچ قوم ! ہم اکیسویں صدی میں بھی اس چیز کا ادراک نہیں کرپارہے ہیں کہ بلوچ سماج اور بلوچ راج میں منصوبہ بندی کے تحت منشیات کو پھیلانے میں براہراست ریاست کا کردار ہے؟