بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے ڈاکٹر محمد علی بلوچ کی ناگہانی وفات پر گہرے دکھ و رنج کا اظہارکرکے پارٹی اور قومی تحریک کے لیے ان کی بے لوث خدمات اور قوم پرستی کو سلام پیش کرتی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی بلوچ نے ایک باوقار “گمنام ہیرو” کی طرح بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں بے شمار خدمات انجام دیئے اور ثابت کر دیا کہ نمود و نمائش کے بغیر خاموشی سے کس طرح قومی تحریک میں معاون کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔
ترجمان نے کہا ڈاکٹر محمد علی بلوچ، تربت شاپک کے رہائشی اور ایک قوم پرست، آزادی پسند اور نہایت کمیٹڈ انسان تھے۔ وہ قومی آزادی پر نہ صرف یقین رکھتے تھے بلکہ انہوں نے اپنے خاندان اور علاقے میں لوگوں کو تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ یہی وجہ ہےکہ ان کے خاندان سے متعدد نوجوان مختلف پلیٹ فارموں پر سرگرم ہوئے۔ ڈاکٹر محمد علی بلوچ کے خاندان کے کئی گبھرو نوجوان بلوچ قومی تحریک آزادی کے لیے شہید ہوئے جن میں شہید زہیر جان، شہید عامر خان، شہید فدائی جمال، شہید شاہ میر، شہید دولت اور شہید ایوب شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرمحمد علی بلوچ نے ایک غیرت مند اور باضمیر بلوچ کی طرح زندگی گزاری۔ میڈیکل ڈگری کے ساتھ انہوں نے سروس کمیشن کے ذریعے پولیس آفیسر کا مقابلہ امتحان پاس کیا اور ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر ہونے کے باوجود، انہوں نے اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ گوادر کے دوران ان کی سلامی کی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا۔ یہ جرات مندانہ اقدام نے ان کی قوم پرستی اور قومی شعور کا واضح اظہارتھا جس کے نتیجے میں انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ حالانکہ انہیں بارہا پیشکش کی گئی کہ وہ کسی وزیر سے سفارش کروائیں آپ کو منصب پر بحال کیاجائے گالیکن ان کی ضمیر نے گوارا نہیں کیا۔
ترجمان نے کہا ڈاکٹر محمد علی بلوچ ایک روشن فکر اور باعلم انسان تھے۔ انہوں نے “چاوش بلوچ” کے قلمی نام سے دو اہم کتابیں “پارلیمانی سیاست اور بلوچ جہد آزادی” اور “بلوچ جہد آزادی، کامیابیاں اور نئی حکمت عملیاں”تحریر کیں۔ یہ تصانیف ان کی فکری بصیرت اور قومی عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مضامین مختلف قلمی ناموں سے لکھے۔
ڈاکٹر محمدعلی بلوچ نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ہمیشہ پارٹی اور دیگر تنظیموں کی مدد کی اور اپنی محنت کی کمائی سے بلوچ شہداء کے متعدد خاندانوں کو سپورٹ کیا۔
بی این ایم ڈاکٹر محمد علی بلوچ کی قربانیوں اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی ناگہانی وفات پر ان کے خاندان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ہم ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور ان کی یاد ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔