ڈپٹی کمشنر گوادر نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ او بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین پر حملے کی غرض سے آنے والے شخص کا تعلق پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ایجنسی سے ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ دنوں بلوچ راجی مچی کے دوران جلسے کے شرکاء نے اسٹیج کے قریب سے دو مشکوک مسلح افراد کو پکڑ لیا جن کے قبضے سے ایک عدد نائن ایم ایم پسٹل، واکی ٹاکی اور متعدد گولیاں برآمد کی گئی۔
دی بلوچستان پوسٹ کو موصول ہونے والی ویڈیو میں ملزم نے اعتراف کیا کہ انہیں پاکستان کی ایم آئی نے ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو قتل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر گوادر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ راجی مچی کے دوران، کمیٹی کے کارکنان نے لا انفورسمنٹ ایجنسیز کے ایک اہلکار کو اپنے تحویل میں لے لیا اور ان کو واپس دینے سے انکار کیا۔ ضلعی انتظامیہ نے طویل مذاکرات کیے لیکن کمیٹی نے سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکار کو ہمارے حوالے نہیں کیا۔ اس کے بعد پولیس اور ایف سی نے دھرنے کے ہجوم کو منتشر کیا۔
انہوں دعویٰ کیا کہ ہجوم کو منتشر کرنے کے وقت کسی بھی سیکورٹی اہلکار کے پاس بندوق نہیں تھی۔ آنسو گیس کے شیلنگ کر کے منتشر کیا گیا۔ تاہم مظاہرین، جو کہ شروع سے پرتشدد تھے، انہوں نے ایک ایف سی اہلکار کو پتھروں سے مار مار کے شہید کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے راجی مچی کمیٹی کے رہنماؤں کو پرامن احتجاج کرنے اور انہیں ہر قانونی حق فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن کمیٹی نے ضلعی انتظامیہ کی کسی بھی بات کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ بلوچ راجی مچی کمیٹی کے کارکنان نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا۔
ڈپٹی کمشنر نے سمی، صبیحہ اور صبغت اللہ کی گرفتار کو افواہیں قرار دے کر کہا ہے کہ خواتین کو گوادر میں راجی مچی کے موقع پر گرفتار یا زخمی کرنے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔
دوسری جانب عینی شاہدین کا کہنا ہے فورسز نے دھرنے پر حملہ کرکے مظاہرین پر فائرنگ کھول دیا اور مظاہرین کو زخمی کیا گیا جبکہ ڈاکٹر صبیحہ، سمی دین اور صبغت اللہ کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔