ڈاکٹردین محمد بلوچ کی وطن اور قوم سے عشق کی قیمت طویل جبری گمشدگی کی صورت ادا کررہے ہیں۔ اقبال بلوچ

84

بلوچ نیشنل موومنٹ شہید راشد مشکے آواران زون کی طرف سے پارٹی کے اسیر مرکزی رہنما ڈاکٹر دین محمد کے جبری گمشدگی کو پندرہ سال مکمل ہونے پر زونل صدر مہران بلوچ کے صدارت میں پروگرام منعقد ہوا، مہمان خاص مرکزی ویلفیئر سیکریٹری اقبال بلوچ اور پروگرام کے منتظم زونل نائب صدر تلاربلوچ تھے ، اس پروگرام میں پارٹی کارکنوں اور دیگر لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

زونل صدر مہران بلوچ نے ڈاکٹر دین محمدبلوچ ایک مضبوط فکر کے مالک اور وطن کے درد سے آشنا رہنما ہیں انہوں نے سیاست کا آغاز زمانہ طالب علمی سے بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا،انہوں نے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کے بعد پارٹی میں بلوچ قومی آزادی کے لیے قوم کو موبلائز کرنے میں اپنی زندگی وقف کردی تھی۔

انہوں نے کہا ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک عام ڈاکٹرنہیں بلکہ لوگوں کے لیے مسیحا کے علاوہ قومی بیماری کا تشخیص کرکے اس کی علاج شروع کی ،انہوں نے کہا اصل بیماری قومی غلامی ہے ، قبضہ گیریت ہے ،نوآبادیاتی نظام ہے ، اس کے چھٹکارا حاصل کیے بغیر ہم ایک باوقار قوم نہیں بن سکتے ۔

پروگرام کے مہمان خاص مرکزی ویلفیئر سیکریٹری اقبال بلوچ نے پارٹی کارکنوں اور کیڈر کی ان حالات میں کام کرنا، پروگرام منعقد کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہماری پارٹی کے ہر کارکن کو یہ إحساس ہے کہ یہ پارٹی شہدا کی پارٹی ہے، سیاسی اسیروں کی پارٹی ہےاور جدوجہد میں حاصل ہونے والی کامیابیاں شہدا کے لہو کی ثمرات ہیں۔

انہوں نے کہا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی طویل جبری گمشدگی اس بات کی بین ثبوت ہے کہ ڈاکٹردین محمد بلوچ کی وطن اور قوم کے ساتھ رشتہ کتنا مضبوط تھا اور وہ اس رشتے کی قیمت دشمن کی زندان میں اذیت سہہ کر ادا کررہے ہیں ۔

اقبال بلوچ نے کہ ستر کی دہائی میں مشکئے اور جھاؤ کے درمیان واقع دُومگ کے پہاڑی سلسلے میں پاکستانی فوج نے عطا سمالاڑی ،نیٹو، بی بی سُومری اور پیراڑی کے ساتھ 13 بلوچ شہید کیے اس وقت فوج نے اعلان کیا کہ اس علاقے سے اب کوئی سرمچار پیدا نہیں ہوگالیکن ڈاکٹردین محمد اور ڈاکٹرمنان جان بی این ایم کے پلیٹ فارم سے ان علاقوں میں دورے کیے، شہدا کے خاندانوں سے ملے، شہیداستاد علی جان کے ساتھ مل کر قومی سیاست کے لیے تربیت کا سلسلہ شروع کیا ۔جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہیں یہ علاقے قومی تحریک کے اہم محاذ بن چکے ہیں ۔