پاکستان کی موجودہ حالت اور بلوچ قومی تحریک
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان معاشی، سیاسی، سماجی اور آئینی بحرانوں کی زد میں ہے۔ ملکی سیکیورٹی حالت نے چین سمیت کئی غیر ملکی سرمایہ کاروں میں خوف کو جنم دیا ہے جس کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے سے ہچکچا رہے ہیں اور وہیں ریاست کی اندرونی چینلنجز نے ریاست کو معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار بنا دیا ہے، ان مسائل سے ریاست عنقریب نکلتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی سیاسی، معاشی،تعلیمی ،سماجی اور عدالتی امور کا دارومدار سیاسی استحکام کی مرہون منت ہے، اگر کوئی ملک تجارتی حوالے سے ترقی کررہا ہے، اس ملک میں انصاف کا بول بالا ہے، تعلیمی اور سماجی سرگرمیاں ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے تو سمجھ جائیں کہ اس ملک میں سیاسی استحکام موجود ہے، سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ہم پاکستان کی معروضی حالات کا مشاہدہ کریں تو یہاں فوج جمہوریت کے نام پر درپردہ حکومت کررہی ہے جبکہ بڑی سیاسی پارٹیاں بھی فوج کی اجازت کے بغیر امور حکومت سر انجام دینے سے قاصر ہے۔ پاکستان کے سیاسی بحران پر مشاہدہ کریں تو سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف گذشتہ تین سالوں سے پاکستانی مقتدرہ(فوج) کے لئے سر درد بنی ہوئی ہے۔
پاکستان میں موجودہ سیاسی عدم استحکام کا دور اس وقت شروع ہوا جب فوج نے نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرکے عمران خان کو منصب اقتدار سونپا۔ پاکستان میں اقتدار کے لئے گزشتہ کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان رساکشی ہو رہی تھی، پاکستان فوج نے انہیں عدالتوں کے ذریعے مشکلات میں پھنسایا اور عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے تحریک انصاف کو بڑے پیمانے پر مدد دی۔ دو ہزار اٹھارہ کو فوج، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے زریعے عمران خان کو انتخابات میں جتوایا گیا جس کے بعد فوج کی مدد سے عمران خان تین سال تک برسراقتدار رہا لیکن پاکستان کو معاشی بھنور سے نکالنے میں ناکام رہا۔ تین سال گزرنے کے بعد فوج کو احساس ہوا کہ عمران خان ان کیلئے سردرد بن رہا ہے جس کے بعد انہوں نے اپنی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے دو ہزار اکیس میں عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن کی مدد سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے فارغ کردیا۔ پاکستان میں سولہ مہینے مخلوط حکومت کے دور میں بھی سیاسی، معاشی، آئینی عدم استحکام پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرتا رہا اور مخلوط حکومت کے بعد ملک کی باگ دوڑ نگران حکومت کو سونپی گئی لیکن ملک میں عدم استحکام نہ ٹل سکا جبکہ بحران کی شدت میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کی سیاسی حقیقت سے ہر باشعور فرد واقف ہے کہ کوئی پارٹی فوج کی مدد کے بغیر اقتدار کے منصب پر پہنچ نہیں پاتی اور جب کوئی جماعت فوج کے منصوبے کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو ریاست مخالف بیانیہ بنا کر انہیں ریاست مخالف ثابت کیا جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف فوج کی آشیرباد سے ہی حکومت میں آئی اور جب فوج سے تعلقات بگڑے تو اس جماعت کو انتخابات لڑنے کے لئے نا اہل قرار دیا گیا۔ اب ایسی افواہیں گردش کررہی ہے کہ تحریک انصاف کو کالعدم قرار دیا جائے گا، بعید نہیں کہ اس فیصلے سے پاکستان کے سیاسی معاشی، آئینی و سیکیورٹی مسائل گھمبیر شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ فروری دو ہزار چوبیس کو جب پاکستان میں انتخابات ہوئے، پاکستان تحریک انصاف نے نوے سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اکثریتی جماعت کی حیثیت حاصل کرلی لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ایک مخلوط حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا وزیر اعظم شہباز شریف اور صدارت کی ذمہ داری آصف علی زرداری کو تقویض کی گئی لیکن پانچ مہینے کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی سیاست میں استحکام آنے کے بجائے ملک میں آئینی بحران پیدا ہوا ہے جو پاکستان کے لئے مذید مشکلات کا باعث بنے گا اور مستقبل قریب میں سیاسی بحران پاکستان کو مزید دلدل میں دھکیل دیں گا جس کے نتائج پاکستان کے وجود کے لئے خطرناک ثابت ہونگے۔ مالیاتی امور پر رائے دینے والے محکمے کی پیشن گوئی کے مطابق پاکستان پر براجمان حکومت ڈیڑھ سال کے بعد ختم ہوجائیگی، جس کا مطلب ہے کہ معاشی بحران بھی مستقبل قریب میں سنگین ہوتا چلا جائے گا۔ مخصوص نشستوں کے مسلئے پر سپریم کورٹ نے جب فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں دیا تو اس فیصلے نے نہ صرف آئینی بحران کو جنم دیا ہے بلکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو سپریم کورٹ کے مقابل لا کھڑا کردیا۔
تحریک انصاف کی یورپی ملکوں میں لابنگ فرم ہائر کرنے کی وجہ سے اقوام متحدہ اور امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستانی انتخابات پر سوال اٹھائے ہیں اور آئندہ دنوں میں برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی انتخابات کو مشکوک قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں اقرار کرچکے ہیں کہ پاکستان میں آئینی بریک ڈاون کا خطرہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے اور اگر عبوری سیٹ اپ تشکیل دی جائے گی ایک سنگین بحران پیدا کرنے کا سبب بنیں گا۔ پاکستان میں معاشی بحران کا اندازہ جنوری دو ہزار چوبیس کی ورلڈ بینک کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق پاکستان کی معشیت اب اپنے بد ترین بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کررہی ہے اور ناقص پالیسی کا انتخاب، انسانی ترقی کے کم نتائج اور فی کس آمدنی میں کم اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مہنگائی، غربت،بیروزگاری نے عوام کی زندگی میں بھونچال پیدا کیا ہے اور پاکستان اپنے سیاسی اور سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ لگانے پر آمادہ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور آئینی بحران نے پاکستان میں ایمرجنسی اور مارشل لاء کی افواہوں کو تقویت فراہم کی ہے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ججز کو تضحیک آمیز الفاظ سے نواز رہے ہیں جبکہ مسلم لیگی ایکٹیوسٹ بھی ججز کو نشانہ بنا رہے ہیں، دوسری طرف فوج اپنے زر خرید لوگوں کے ذریعے ججز اور سیاستدانوں میں خوف کی فضاء قائم کرنے کے علاوہ ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
ان تمام صورتحال سے نمٹنے کے لئے ریاست پاکستان نے عزم استحکام کے نام سے آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ پاکستان میں افراتفری کا جو سماں پیدا ہوا ہے اسکو بہتر بنایا جاسکے جبکہ اس کی آڑ میں ریاست ایک تیر سے کئی نشانہ لگانا چاہتی ہے، جس میں عمران خان کو مائنس کرنا، بلوچستان میں بلوچ سرمچاروں اور پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے ہاتھوں آئے روز خطرناک حملوں کا سامنا کرنے سے ریاست کی فوج کے اندر جو مورال ختم ہوئی ہے اس کو بحال کیا جا سکیں لیکن معروضی حالات یہ بتارہے ہیں کہ عزم استحکام آپریشن کی کامیابی ایک سراب کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ خیبر پختنخواہ حکومت اور وفاق حکومت میں ہم آہنگی اور یکسانیت کا فقدان ہے اور وہیں طرف پشتون تحفظ موومنٹ اور فوج کے درمیان تنازع عزم استحکام کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ نے اکتوبر میں ایک قومی جرگہ منعقد کرنے ک فیصلہ کیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے پاکستانی عزم استحکام مستقبل میں عدم استحکام کی جانب گامزن ہوگا جو انقلابی طاقتوں کے اتحاد و یکجہتی کے لئے ایک نیک شگون ہوگا۔خیبر پختنخواہ کے عوام پاکستانی فوج کی ڈالری جنگ کے خلاف میدان میں ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ عوام اب مزید اس جنگ میں ایندھن نہیں بنیں گے جس کا مطلب صاف اور واضح ہے کہ پشتون عوام پاکستانی ظلم و ستم سے مکمل نجات چاہتے ہیں اور اس نجات کا مطلب آزادی ہے۔ تحریک طالبان پاکستانی کی عسکری کاروائیوں نے پاکستان میں سیکیورٹی ایشوز کو گھمبیر بنادیا ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی آمد میں بڑی رکاوٹ ہے۔ بلوچستان میں بھی ریاست کیلئے آپریشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ بلوچ سرمچار اپنی جنگی حکمت عملیوں کے سبب ریاست کے نام نہاد انٹلی جنس بیسڈ آپریشن مسلسل ناکام ہورہے ہیں اور موجودہ حالات میں بلوچ سرمچار ریاست کے فوجی طاقت کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں سیاسی محاز پر بلوچ یکجہتی کمیٹی اور سیاسی جماعتیں ریاست کی حالیہ فوجی آپریشنوں کے خلاف آگاہی اجتماعات منعقد کر رہے ہیں اور ریاست کی نسل کشی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے ریاست کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کے تمام مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا سامنے سب سے بڑا مسلہ بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک ہے جس کو کاونٹر کرنے کے لئے پاکستان اپنی تمام عسکری مشینری استعمال کررہا ہے لیکن بلوچ قوم کے سیاسی شعور اور قربانی کے امتزاج نے پاکستان کے فوجی طاقت کو بلوچستان میں سخت مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبریں، جبری گمشدگیاں اور اجتمائی سزا کےحربے آزمائے لیکن بلوچ قوم نے انہیں ناکامی سے دوچار کیا ہے۔
بالاچ بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچستان میں پیدا ہونے والی سیاسی ابھار نے تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے جو تربت سے شروع ہو کر اسلام آباد پہنچ کر دنیا کو بلوچستان میں ہوئے ظلم سے آگاہ کیا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سیاسی و منظم تحریک چلانے کے لئے کمیٹی کو ایک سیاسی تنظیم کی شکل دی جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ مستقبل میں بلوچ قومی تحریک ایک منظم شکل اختیار کرے گی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اٹھائیس جولائی کو گوادر میں بلوچ راجی مچی کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں بلوچستان، کراچی اور کوہ سلیمان میں آگاہی پروگرام منعقد کئے تاکہ گوادر مچی کو کامیاب بنایا جاسکے اور بلوچ قوم کو سیاسی شعور سے لیس کرکے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جاسکا۔ بلوچ مسلح تنظیم بی ایل اے کی عسکری کاروائیوں نے سی پیک کی تکمیل پر کاری ضرب لگائی ہے صرف دو ہزار چوبیس کے ابتدائی تین مہینوں میں بی ایل اے مجید بریگیڈ نے تین مختلف مقامات پر پاکستان فوج پر مہلک حملے کئے جس کی وجہ سے چائنا پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کررہا ہے۔ بی ایل ایف کی کاروائیوں نے بھی پاکستان کی سیکورٹی صورتحال میں بگاڑ پیدا کی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے سپاہی ذہنی اذیت کا شکار ہے۔ بلوچ راجی آجوئی سنگر کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کے خلاف دفاع کا بیان بلوچ قومی مسلح تنظیموں کی طاقت کا اظہار ہے اور یہ اظہار صرف طاقت کا نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کا مظہر ہے۔ بلوچستان میں سیاسی اور عسکری تنظیموں کی جدوجہد مستقبل قریب میں تحریک کو کامیابی کی جانب گامزن کرسکتی ہے، جس کے لئے بلوچ تنظیموں میں اتحاد ناگزیر ہے اور سیاسی میدان میں عوامی شعور ہی بلوچ قومی تحریک کو حتمی مراحل میں داخل کرسکتی ہے جس کا نتیجہ بلوچ قومی آزادی پر منتج ہوسکتا ہے۔ پاکستان ایک ایسی عفریت کا نام ہے جو برطانیہ کی دلالی سے مذہب کے نام پر وجود میں آیا، مذہب کے نام پر بلوچ، سندھی اور پشتون کو اپنے ساتھ ملانے کی جدوجہد کرتا رہا لیکن کہتے ہیں کہ قبضہ گیر تعصب پرست ہوتا ہے اسکی نظر میں وہ مقدم اور باقی حقیر ہے اس لئے پنجابی ریاست بلوچ، پشتون، سندھی،کشمیری اور ہزارہ وال کو نشانہ بنا رہی ہے جبکہ شدت پرستوں کی آماجگاہ پنجاب میں دست شفقت رکھ کر مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے رہی ہے لیکن پاکستان کا یہ گھناونا چہرہ سب قومیتوں پر آشکار ہوچکا ہے اس لئے تمام قومیں مزاحمت کرکے اس ناسور سے نجات کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔ بلوچ آزادی پسند اپنے صفوں میں اتحاد کے علاوہ دیگر مظلوم اقوام کے ساتھ اتحاد کو یقینی بنا کر ملکی و غیر ملکی سطح پر ریاست کے خلاف مزاحمت کی شدت کو تیز کریں تاکہ بلوچستان ایک آزاد ملک کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوں اور بلوچ عوام سمیت تمام مظلوم ایک آزادانہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔