امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ری پبلکن پارٹی کے نیشنل کنونشن کے دوران پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کو قبول کر لیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے تقریر کے دوران خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں احساسات بیان کیے۔
ری پبلکن کنونشن سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ گزشتہ ہفتے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان کی زندگی ختم ہو سکتی تھی۔ حملے کے بعد “ہر طرف خون بہہ رہا تھا، پھر بھی، ایک خاص طریقے سے میں بہت محفوظ محسوس کر رہا تھا کیوں کہ میرے ساتھ خدا تھا۔”
انہوں نے کہا کہ “ہمارے معاشرے میں انتشار اور تقسیم کو ٹھیک کیا جانا چاہیے۔ ہم اسے جلدی ٹھیک کر دیں گے۔ امریکی ہونے کی حیثیت سے ہم ایک ہی قسمت اور ایک مشترکہ تقدیر سے جڑے ہوئے ہیں۔”
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق سابق صدر ٹرمپ جارحانہ بیان بازی کے لیے مشہور ہیں لیکن جمعرات کو خطاب کے دوران انہوں نے ایک نرم اور گہرا ذاتی پیغام پیش کیا۔
خطاب میں ٹرمپ نے لوگوں میں مقبول اپنا سیاسی ایجنڈا بیان کیا اور خاص طور پر امیگریشن کے مسئلے پر بات کی۔
قاتلانہ حملے کے بارے میں انہوں نے لوگوں کو بتایا،”اگر میں نے اس آخری لمحے میں اپنا سر نہ موڑا ہوتا تو قاتل کی گولی بالکل اپنے نشان پر لگتی، اور میں آج رات یہاں نہیں ہوتا، ہم اکٹھے نہ ہوتے۔”
ٹرمپ نے ریاست پینسلوینیا میں ریلی کے دوران ان پر ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والے ریٹائرڈ فائر چیف کوری کمپریٹور کے لیے ایک لمحے کی خاموشی بھی اختیار کی۔
ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا “میں سارے امریکہ کے لیے صدر بننے کے لیے (الیکشن) لڑ رہا ہوں، نصف امریکہ کے لیے نہیں۔ کیوں کہ نصف امریکہ کے لیے جیتنا کوئی فتح نہیں ہے۔”
سابق صدر نے کہا کہ امریکی ایک ساتھ ہی کامیاب ہوتے ہیں یا پھر وہ کامیاب نہیں ہوتے۔
ٹرمپ کا خطاب ریاست وسکانسن میں چار روزہ ری پبلکن کنونشن کا اختتامی جلسہ تھا جس میں ہزاروں قدامت پسند کارکنوں اور منتخب عہدیداروں نے شرکت کی۔
ٹرمپ کی نامزدگی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب موجودہ صدر جو بائیڈن کو اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض رہنماؤں اور ڈونرز کی جانب سے الیکشن کے مقابلے سے دستبردار ہونے کے مطالبوں کا سامنا ہے۔
سابق صدر باراک اوباما نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ بائیڈن شاید دوبارہ منتخب نہ ہوسکیں۔
صدر بائیڈن رواں ہفتے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ریاست ڈیلاویئر میں اپنے گھر میں قرنطینہ میں ہیں۔
اے پی کے مطابق امریکی ووٹرز رواں برس پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک ایسے الیکشن کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس میں دو غیر مقبول امیدوار ہیں۔