فدائی خدا دوست
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان دو طریقوں سے زندگی گزارتا ہے اور اِن طریقوں کو دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک کی نظر میں زندگی کے معنی خواہشات کی تکمیل، عیش و عشرت اور ذاتی مفاد ہے جبکہ دوسرا انسان زندگی کو اسکے برعکس معنی دیتا ہے۔ اسکی نظر میں زندگی قربانی، محبت، جوش و جذبہ اور تاریخ رقم کرنے کے لئے انسان کو بطور زمہ داری دیا گیا ہے۔
پہلا انسان زندگی میں اپنے خواہشات اور اپنے نفس کی خوشنودی کے لئے یا تو محنت کرتا ہے یا اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا استحصال کرکے ایک اپنا ذاتی مقام بنالیتا ہے لیکن یہ بد قسمت انسانی تاریخ میں اپنا نام زندہ رکھنے میں ناکام ہوتا ہے جبکہ دوسرا انسان محبت کی لا زوال داستان رقم کرکے اپنے خواہشات کا گلا گھونٹ کر قوم کی محبت اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت خود کو فدا کرکے قومی تاریخ امر ہوجاتا ہے اور تاریخ کو ایک ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے غلام قوم میں ایک احساس اور امید کو جنم دیتا ہے۔
ایک ایسی امید جس کا نام آزادی ہے اور اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے اپنے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے تمام بلوچ فرزند قوم کے حقیقی ہیرو ہے اور حقیقی ہیرو کو یاد کرنا اور ان کی عظمت کو بیان کرنا ایک زندہ قوم کے زندہ ہونے کی نشانی ہے۔
شہید فدائی خدا دوست عرف اسد بلوچ قوم کے ایک حقیقی ہیرو کا نام ہے جس نے آپریشن زر پہازگ چہارم میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گوادر کے سیکیورٹی حصار میں قابض ملک کی خفیہ محکمے ملٹری انٹیلجنس اور انٹر سروس انٹیلجنس کو نشانہ بنایا اور تاریخ میں قربانی کے جذبے کو اپنے لہو کی مہک سے ایک نئی تازگی بخشی۔
شہید ایک ملنسار، مخلص، شعوری و فکری سنگت تھے جس کی بلوچ جدوجہد میں سفر کا آغاز بی ایس او آزاد سے ہوا، بی ایس او آزاد تربت زون کے ممبر رہے اور بعد میں بلوچ قومی مسلح تنظیم بی ایل اے سے منسلک ہو کر اپنے خدمات بی ایل اے مجید بریگیڈ کو پیش کردی۔
شہید سے پہلی ملاقات ڈیڑھ سال پہلی ہوئی اور جلد ہی ایک دوسرے سے مانوس ہوگئے اور جب کبھی سیاسی حالات پر ڈسکشن کرتے تو ان کا محور و مرکز بلوچستان ہوتا، دنیا کی سیاست، اسکے اثرات اور بلوچستان میں پاکستان ؤ چائنا کے منصوبے اور بلوچ قوم کو اقلیت میں بدلنے کی سازش، ان ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے بلوچ قومی جنگ کی پالیسیاں، بلوچ سیاست اور مسلح جنگ میں جدید حکمت عملی اور ان کا نفاذ کیسے کی جائے، شہید کی ڈسکشن کا حصہ ہوتے تھے۔
شہید کے ساتھ ہم سفر ہونے کی بعد معلوم ہوا کہ شہید نہ صرف سیاسی فکر سے لیس ایک جہد کار ہے بلکہ ایک محنتی اور جذبے سے بھرپور ایک سرمچار ہے، جن کا مقصد بس وطن کئے قربان ہونا ہے۔
ہم بی ایس او کی سیاسی جدوجہد، تقسیم در تقسیم اور بلوچ قومی جدوجہد پر منفی اثرات، مسلح تنظیموں کی کاروائیوں، مجید بریگیڈ کا قیام، استاد اسلم اور ساتھیوں کی جدید حکمت عملی پر بحث کرتے رہے اور جنگ کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے لئے اپنی بساط اور علم کے حوالے تجاویزات ایک دوسرے کے سامنے پیش کرتے رہے۔
میری بد قسمتی ہے کہ زیادہ عرصہ شہید خدا دوست کے ہمراہ نہیں گزار سکا لیکن جتنے دن گزارے ہمیشہ سیکھنے کی کوشش کی اور اِن کچھ دنوں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا لیکن جب کبھی ملاقات ہوتی یا فون پر بات چیت ہوتی تو ہمارے گفتگو کا محور بلوچ مسلح جنگ اور سیاست ہی ہوتا تھا۔
ایک دن سیاست کے موضوع پر ایک مضمون تحریر کیا تو اس کو درستگی کے لئے شہید خدا دوست کو ارسال کیا تو انہوں نے درستگی کے علاوہ مذید کچھ نکات کا اضافہ کیا اور مضمون کو اس ترتیب سے تحریر کیا جس سے ظاہر ہوا کہ شہید نہ صرف ایک گوریلا سرمچار، فکری دوست کے علاوہ اپنے فیلڈ پولیٹیکل سائنس میں بھی مہارت رکھتے تھے۔
شہید بلوچی زبان کے ایک رائٹر بھی تھے جن کے کئی مضامین دی بلوچستان پوسٹ نے شائع کئے جبکہ میرا لکھا ہوا ایک اردو افسانہ بلوچی زبان میں ترجمہ کرکے مجھے ارسال کیا۔
سیکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا ایک جگہ کہتے ہیں کہ بلوچ جنگ میں پڑھے لکھے نوجوان آرہے ہیں جو جنگ کو ایک نیا رخ عطا کررہے ہیں۔ یہ ایک سچائی ہے کہ بلوچستان کی جنگ ایک قومی جنگ کا روپ دھار چکی ہے جس نے قوم کو متحد کیا ہے اور اِس کا سہرا بلوچ تنظیموں اور ہمارے شہدا کو جاتا ہے جنہوں نے قوم کے بہتر مستقبل کے لئے اپنی زندگیاں نچھاور کرکے ایک امید کو جنم دیا ہے کہ ایک قوم کے نوجوان جب راہ آزادی پر چل پڑے تو وہ معاشرے کے تمام پرتوں کو متاثر کرکے اس جنگ کا حصہ بنالیتے ہیں۔
شہید خدا دوست، بلوچ فدائین اور شہدائے بلوچستان کی مرہون منت ہے کہ بلوچ قوم آزادی کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تاریخ کا دھارا بدل رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔