زندان میں جلتے چراگ ۔ بختاور بلوچ

172

زندان میں جلتے چراگ

تحریر: بختاور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

یہ میرے وہ کلام ہر گز نہیں جو پہلی دفعہ رقم طراز ہوئے ہوں، یہ زخم،یہ دکھ و درد آج نہیں ملے پر از سر نو سے ہی یہی اندوہ ہے،ان نم اور سرخ چشمان میں آنسوؤں کے قطرے صرف آج گمنام اور نامعلوم تصویروں پر نہیں ٹپکتی ہے اور نہ ہی ان غمزدہ اور مغموم چہروں پر رنج و غم کا طغیان بھی ابھی ناسور و منہمد ہوگیا ہے بلکہ دہائیوں سے۔دہائیوں سے اپنے والدین،بھائیوں،بہنوں اور اپنوں کے فراق کے سبب ہماری ہر خوشی،خوائش،شوق،تمنا حتی کہ بچپن بھی بے تکا رہ گئی۔ گھر کا ایک ہی چراغ تھا جو سلگا ہی نہیں تھا کہ بجھا دیا گیا۔سب کچھ بکھر کر رہ گیا۔وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں جو گھر گھر میں خوشیوں کا سوغات لیے پھرتی تھی آج وہ ہوائیں میرے گلزمین کے شیدائیوں،قلمکاروں اور کتاب دوستوں کی مقتل اور مسخ شدہ لاشوں کی ٹپکتی خون سے میری ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی سفید چادر سرخ مائل کر رہی ہیں۔سر سبز باغات میں پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ اور پھولوں سے لدے ہوئے پودوں پر وہ رنگ برنگی چڑیا جو چہکتی، جہاں خوبصورت بلبل گیت گاتی تھی آج اسی خاکسار،قبرستان نما باغ میں چڑیا پڑپڑاتی تک نہیں۔ وادیوں اور صحراؤں میں جہاں میرے نوجوانوں کی ہنسیاں گونج اٹھتی تھی آج وہاں سے ان مرجھائے ہوئے پھولوں کی لاشیں برآمد ہو رئی ہیں۔جو کبھی کسی اور کے لیے ایک آواز بنیں رہیں آج وہ خود بند کتاب میں بس ایک الفاظ ہی رہ گئے۔
ان سنی اور ان کہی الفاظ!

کبھی جو کتابوں کے شیداء سرد اندھیری راتوں میں چراغ جلا کر کتابوں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے آج وہ کتاب بند و اندھیرے کوٹھی میں بے نور و ملال پڑی ہیں۔ کتابوں کی رونق،ان کا چراغ،ان کی زینت بندشوں میں بند،زنجیروں میں جھکڑے ہوئے،کالے پنجرے میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ان جرائم کے سبب برسوں سے عقوبتیں جھیل رہیں ہیں شاید انہوں نے کبھی کی ہی نہ ہو۔

رنگینی سیاھیوں سے آرائش وہ لطیف و نازک القلب ہاتھوں سے لکھے ہوئے روح پرور و دلنواز الفاظ جو سفید صفحات کی زینت و محلہ ہوا کرتی تھی نہ جانے اب کن خاک و خزان اور بے ارتی کے انبار میں پڑی ہونگی۔ کون جانے کہ کن غیر منقش جانور و وحشی حیوانوں کے نذر ہوگئے ہیں۔

میں ایک رجاہ کے خاطر جب اپنی چاروں اطراف میں امید سے لبریز اپنی اشکبار آنکھیں پھیرتی ہوں تو مجھے وہ معصوم مسکراتا ہوا چہرہ،جس کو دیکھنے کی تڑپ میرے مردہ دل کو بیدار کرتی تھی، ان ظالم وحشیوں کے ہاتھوں عقوبتیں،اذیتیں سہتا دکھائی دیا۔وہ ناچیز چیختا،چھلاتا ہوا مجھ بدنصیب بہن کو پکارتا رہا پر میرے نامبارک ہاتھ،پاؤں ان مضبوط رسیوں سے بندھے رہیں،میں بھیٹی رہی،میں کچھ نہ کر سکی۔میرے آنکھوں کی روشنی تڑپتا رہا،میرا چراغ بجھتا گیا،میرے آنگن کا گلاب مرجھا گیا،میرا گھر کا شیرازہ بکھر گیا،میرا محافظ چلا گیا میں کچھ نہ کر سکی، تب بھی میں کچھ نہ کرسکی۔

میں دھوپ میں کھڑی رہی تب بھی سائے تلے تھی۔تیز بارشوں میں کھیلتی رہی پر بھیگتی نہیں تھی۔چلتے چلتے راستہ بھول جاتی پر بھٹکی کبھی نہیں۔اندھیری راتوں میں سنسان سڑکوں پر گھومنے کے خواہشیں تھی تب بھی ڈری نہیں۔کبھی کچھ ہوا نہیں۔میں محفوظ رہی تب تک جب تک میرا کوئی سہارا تھا پر ان درندوں نے مجھ بےبس بیٹی کو مسمار کر دیا،میرا سہارا چھین لیا۔میری ان بدبخت آنکھوں کے سامنے رات کی تاریکی میں میرے چمکتے ہوئے چاند کو گھسیٹتے ہوئے بند اذیت خانوں میں پھینک دیا۔مجھے ویران کردیا۔ میں روتی رہی پر وہ مسکرا کر کہتا رہا، بیٹا! تیرا سایہ ابھرا کر آئے گا تجھے دھوپ میں جھلسنے نہیں دیگا۔ مجھے اپنے آنے کے آسرے دیتا چلا گیا۔ میرے بابا اپنے آنے کی امید بندھا کے چلا گیا۔ میں ہر روز اس ٹوٹے دروازے کو تکتی رہی،اس دستک کا انتظار کرتی رہی کہ میرا سہارا لوٹ کے آئیگا، وہ
آئیگا،ضرور آئیگا۔

میرے الفاظ گہرے نہیں تھے اور نہ ہی میری آواز سریلی تھی پر وہ ہمیشہ رات کے سہ پہر آکر میرے گود میں اپنا مقدس سر رکھ کر کہتا ” ماں! مجھے اپنے مبارک گود میں سلا کر لوریاں سنا،مجھے بچوں کی طرح تپکیاں دے کر نیند کی آغوش میں لے جا ماں۔

میرے کھانوں میں وہ ذاہقہ نہیں تھا اور نہ ہی میرے ہاتھوں میں مٹھاس پر تب بھی میرا لختِ جگر اپنے شیریں زبان سے کہتا “امّاں! آپ مجھے اپنے ان خوبصورت ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر کھلا۔میں اپنی ممتا بھری آنکھوں سے اپنے جگر کے ٹکڑے کی معصومیت تکتی رہی اسے دیکھتی رہی پر اس دروازے کی دستک سے میرے گھر میں قیامت کا صماں رہ گیا۔ ان ظالموں نے میرا گود اُجاڑ دیا،میری بھری جولی کو بےدردی سے خالی کردیا۔میرا سینا چھیر پھاڑ کر میرے لختِ جگر کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔ میں بےبس ماں کہنے کو جس کے پہروں تلے جنت ہے انکے پاؤں پڑی۔ میں آہ و فغاں کرتی رہی میں منت سماجتیں کرتی رہی پر میری فریادیں رد کردی میری نہ سنی۔

ہم اس لیے نہیں ملے تھے کہ ہم جدا ہو جائے۔ہم نے سپنے بکھرنے کے لیے نہیں دیکھے تھے۔ ہم نے جنم جنم ساتھ رہنے کا وعدہ اس لیے ہرگز نہیں کیا کہ وہ وعدہ یک دم ٹوٹ جائے۔ میں اس ابہام،دو حریف و کھڑی خلیج میں پھنسی ہوئی ہوں کہ میں کسی کی بیوی ہوں یا بیوہ۔ میں اپنے بچوں کو یتیمی کا نام دوں یا بن باپ کی اولاد۔ میں خود کو بے سہارا کہوں یا اپنے بچوں کو دھوپ میں جھلسنے دوں۔ میں اس شخص کو کہاں ڈھونڈوں جو میرے لیے بس ایک گمنام تصویر بن کر رہ گئی ہے؟ میں اسے کیا پکاروں جو خود ہی نامعلوم ہے؟ کیا کبھی ہمارے دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیر نہیں ہو پائیگی؟ کیا میں اسکی انتظار میں گُٹ گُٹ کر جیو گی؟ کیا اب کبھی میرے آنگن میں رونق نہیں ہوگی جس چراغ کو وہ جابر بجھا کر چلے گئے؟ میں اس دستک کا انتظار کروں جو پھر سے میرے لیے خوشیون کی گیت گائے یا اس دستک کا جو میرے عزیز ہمسفر کی لاش میرے گھر کے چوکھٹ پر رک کے چلا جائے؟ کیا میں اپنے ہمراز کو پھر سے سہرا پہنتے دیکھوں گی یا بس کفن میں لپٹی اس کی مسخ لاش؟ آخر میں اس کی بیوی بن کر جیو یا بیوہ بن کر؟

یہ ہرگز کوئی افسانہ نہیں،یہ کوئی کہانی نہیں نہ ہی میرے منہ سے نکلے الفاظ یا میرے قلم کی نوک سے لکھے قصے ہیں بلکہ یہ اس ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کہ دکھ ہیں جو ایک رنج و قرب میں لپٹی ہوئی گلزمین بلوچستان سے ہیں جسے چاہوں تو ہزاروں صفحات پر قلم کی نوک رکھ کر رقم طراز کروں پر تب بھی بیان نہ کر پاؤں۔

میں کس دکھ کی بات کروں؟ کس درد کا اظہار کروں؟
کیا میں اس ملال و اندوہ کا ذکر کروں جب 27 مارچ 1948 کو ہماری آزاد شناخت، ہماری خودمختاری نوآبادیاتی شکنجے میں آئی؟ یا وہ قہر جب 1955 کو ون یونٹ کی تحت بلوچستان و بلوچوں کی ثقافت،شناخت،زبان و تاریخ کو کچلا گیا،مسمار کیا گیا یہاں تک سیاسی و معاشی طور پر استحصال کرکے بلوچوں سے انکی خودمختاری چھین لی؟ کیا میں اپنی نظر اس طرف دوڑاؤں کہ کس طرح 1958،1962،1963،1970 اور 1977
کو ریاست پاکستان نے فوجی آپریشن میں خون کی دریا بہائے،کئی لہو سے لت پت لاشیں گرائی اور کس طرح سرسبز و شاداب میدان ویران کردی،کھنڈرات بنا دی کہ کیسے بلوچستان کو ویران کردیا؟ کیا اب بھی میرا قلم اس قابل ہے کہ وہ یہ لکھ پائے کہ کس طرح 15 مئی 1959 میں ریاستی دلاروں نے بابا نوروز خان زرکزئی کو قرآن کے نام پر پہاڑوں سے نیچے اُتار کر اپنی زبان و قرآن کی توہین کرتے ہوئے بابا نوروز کو انکے ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا گیا اور بعد میں 15 جولائی 1960 کو بابا نوروز کے جانثاروں کو پھانسی کے پندے پر لٹکایا گیا؟

اس ناقابل تردید واقعے کو نہ لاتے ہوئے بلوچ تاریخ کی ناک بری ہوگی کہ زولفقار علی بھٹو کے دورِ عہد میں 6 فروری 1976 کو سردار عطااللہ کے بڑے بیٹے اسداللہ مینگل کو انکے سنگت احمد شاہ کرد کی ہمرائی میں کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا جن کے بارے کاملِ یقین کے ساتھ نہین کہا جاسکتا ہے کہ آیا لاپتہ کرنے بعد انہیں مار گرایا ہیں کہ نہیں اگر شہید کر بھی دیا ہیں تو انکی لاشیں کہاں ہیں؟

میرے تحریر کی تزلیل ہوگی اگر میں یہ بات رد کردوں کہ 2003 سے 2008 کی اس برس میں 8000 بلوچستان کے باشندے (بلوچ) اس سفاک ریاست و ریاستی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبراً لاپتہ کردیے گئے ہیں۔

عالمی امنیستی کے 2012 کے تحقیقی رپورٹ کے مطابق ” 24 اکتوبر 2010 اور 10 ستمبر 2011 کے درمیانی وقفے میں 249 بلوچ قومی کارکنان،اساتذہ،وکلاء اور صحافی حضرات کو لاپتہ کرنے کے بعد انکی لاشیں گرا دی گئی” —(نصیر دشتی 2019 کی تحقیق)۔

اگر لکھنے کو آؤں تو ہم بلوچوں کے دکھ ایک تحریر میں تو نہ آ پائیگیں پر میں اپنے قومی رہنماؤں کے قربانیوں اور لہو کو کیسے فراموش کرسکتی ہو کہ 26 اگست 2006 کو جنرل مشرف کے دور میں بابا نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کردیا گیا تھا صرف یہ نہیں بلکہ 20 نومبر 2007 کو نواب خیر بخش مری کے فرزند اور خیر بیار مری کے بھائی بالاچ مری جامِ شہادت نوش پاگئے۔

ان عظیم رہنماؤں کی جبری گمشدگی اور شہادت نے پورے بلوچستان میں ماتم برپا کردیا پر جس رنج و ملال کے کٹھیرے میں بلوچستان تھا اتنا ہی ان کی گمشدگی و شہادت نے بچے بچے کے دل میں بغاوت پیدا کرکے بلوچ قومی تحریک کی آگ کو اور ہوا دی۔

یہی وجہ ہے کہ چین بھی بلوچ قومی تحریک کی ڈر سے تذبذب کا شکار ہوگیا ہے کہ انہوں نے پاک آرمی کے جنرل ایمن بلال کو بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لیے مہم دیا تھا۔ یہاں استہزہ ہوگا اگر میں اپنی اس تحریر میں وہ بات عیاں نہ کروں جب پاک آرمی کے جنرل ایمن بلال نے کہا “چین نے مجھے چھ مہینے کی مہلت دی ہے کہ چھ مہینوں کے اندر اندر بلوچ قومی تحریک کا خاتمہ کرے تا کہ باآسانی بلوچستان پر اپنی اُجاراداری قائم کر پائے۔”

لیکن جب تک ہم پر ظلم ہوتا رئیگا ،جب تک ہم غلام ہے تب تک ہماری جدوجہد اور مزاحمت جاری رہیں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔