ریاست بلوچ فرزندوں کے جبری گمشدگیوں اور حراستی قتل کا سلسلہ زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ ماما قدیر بلوچ

101

جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو 5518 دن ہوگئے ۔ اظہار یکجھتی کرنے والوں میں محمد امین مکسی ایڈوکیٹ، صدام ایڈوکیٹ، عمران میروانی ایڈوکیٹ اور دیگر نے شرکت کی ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے جاری بیان میں کہا ہے کہ قابض پاکستانی ریاست نہ صرف بلوچ فرزندوں کے جبری گمشدگی اور حراستی قتل کا سلسلہ زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہے بلکہ وہ مختلف حربے استعمال کر کے بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔

بلوچستان کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں اس وقت قابض ریاست کے فوج کا غلبہ نہیں۔ مری بگٹی مکران بولان خضدار قلات کے علاقوں میں بلوچ سول آبادیوں کے خلاف بلا امتیاز ریاستی کاروائیاں گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ بلوچ گدانوں پر فوجی لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بمبار منٹ اب انوکھی بات نہیں رہی۔ آپریشن کے دوران اغوا ہونے والے ہزاروں بلوچوں جن میں خواتین و بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے، کے زندگی و موت کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا ہےکہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ترجمان ایمنسٹی انٹر نیشنل کے بلوچ قومی بابت اہم پیش رفت ہے مگر سنگین انسانی مسئلے کے حل اور بلوچ قومی کاز کا احاطہ کرنے کے لیے ناکافی ہے ۔ بلوچستان کے حالات صرف رپورٹس جاری کرنے کے لیے ناکامی ہیں۔ بلوچستان کے حالات صرف رپورٹس جاری کرنے کے لیے نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فوری مداخلت کا تقاضا کر رہی ہے۔