راجی مچی کیوں اہم ہے ۔ جیئند بلوچ

662

راجی مچی کیوں اہم ہے
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

یہ بظاہر ایک عام سا سوال ہے کہ راجی مچی کیوں کر اہم ہے، یہ سادہ سوال ہر کسی کے زہن میں آ سکتا ہے مگر اس کا جواب بے حد اہم ہے اور یہ جواب کسی کے پاس نہیں حتی کہ میں خود بھی اس سادہ سے سوال کی باریکیوں میں کب سے الجھا ہوا ہوں، یوں ایک دن ایک سینئر کامریڈ دوست کے سامنے یہی سوال رکھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آخر سرکار راجہ مچی سے اتنی خوف کیوں کھارہی ہے؟
اس نے سوالیہ انداز سے مجھے پوچھا کہ تم نے آخری بار کب بلوچ قومی اجتماعی دیکھا جس میں تمام بلوچوں کو مخاطب کیا گیا؟ میرے سامنے گوادر میں چار جماعتی پونم کا جلسہ اس کے بعد بی ایس او آزاد کی حمایت سرمچاران ریلی گھومے لیکن مجھے محسوس ہوا کہ یہ قومی اجتماع کے زمرے میں نہیں آتے اس لیے نفی میں جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ کبھی نہیں دیکھا تب اس نے ایک مختصر مگر تاریخی جملہ لکھ بھیجا “سرکار نے بھی کبھی نہیں دیکھا”

تو راجی مچی کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ سرکار نے بھی کبھی اس نوعیت کے بلوچ قومی اجتماع کا نہیں سنا۔ یہ اجتماع عام جلسہ یا احتجاج نہیں وسیع رقبے پر پھیلے بلوچ قومی اجتماع ہے، اس میں صرف مکران یا بلوچستان (پاکستانی بندوبست) کے بلوچوں کو دعوت نہیں دی گئی ہے یہ پہلی قومی سطح کی اجتماع ہے جس کے مخاطب دنیا بھر کے عام بلوچ ہیں، کیا ایران کیا افغان، کیا خلیج اور بلوچستان اگر یہ راجی مچی کامیاب ہوگئی جس کے زمینی امکانات زیادہ ہیں تو یہ پاکستانی سرکار کی واضح ناکامی ہوگی یہ راجی مچی پاکستانی قبضہ گیریت پر ایک کاری ضرب ہوگی۔ اس سے بلوچ یکجہتی کی راہیں ہموار ہوں گی اور قومی آزادی پر قبضہ گیر ریاست کی اصلیت جاننے اور جانچنے کے لیے عام بلوچ کے پاس ایک لائحہ عمل ہوگا۔

راجی اجتماع کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پاکستان کی بلوچستان پر قبضہ گیریت کے اول دن سے یہ واضح پالیسی رہی ہے کہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کرکے بلوچ کو من حیث القوم سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تمدنی طور پر افائج بنایا جائے، بلوچ نوجوان کو علم و ادب سے دور رکھ کر اس پر جہالت، بیگانگی، پسماندگی اور لڑاکو ٹائپ جیسے القابات رکھ کر دنیا میں پہچان کرائی جائے، ریاست نے پچھتر سالہ قبضہ گیریت کے دوران پوری ایمان داری کے ساتھ ایسا کیا، ریاست ہی نے ایک پالیسی کے تحت بلوچ سماج میں تمام تر منفی رجحانات کو خوب صورت بناکر ہمیں پیش کیا۔ ریاست نے کہا کہ بلوچ جنگجو ہیں لڑاکو ہیں بلوچ غیرت مند ہیں وہ تلوار کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں ہم نے اسے سچ مان لیا کہ ہاں تلوار ہمارا زیور ہے علم ہمیں ڈرپوک بناتی ہے۔ حالانکہ ریاست نے یہ تمام اوصاف جو. بلوچ کے لیے مخصوص کررکھے پنجاپ کو اس سے دور رکھ کر وہاں تعلیمی اور ٹیکنیکل ادارے بنائے، پنجاپ میں علم و ادب کے فروغ میں اربوں روپے خرچ کیے اس کا یہ نتیجہ رہا کہ ایک طویل عرصے تک بلوچستان میں عام ٹیچر تک پنجاپ اور سندھ کے تھے، بیوروکریسی کے کسی ایک اہم عہدے پر بلوچ افسر نہیں دیکھا گیا۔ آج اگر بلوچ اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسران کے عہدے پر براجمان ہیں تو یہ بلوچ سیاسی و قومی مزاحمت کی دین ہے ( بلوچ بیوروکریسی کا مزاج کیسا ہے اس پر الگ سے لکھنے کی کوشش کروں گا)

راجی مچی پر سرکار کی ہرزہ سرائیاں

یاد رکھیں راجی مچی کے حوالے سے سرکار ہم. بلوچوں سے زیادہ فکر مند اور سنجیدہ ہے کیوں کہ سرکار کو بہتر معلوم ہے کہ اس راجی مچی کی اہمیت کیا ہے۔

ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جنہیں یہ یاد ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے راجی مچی کا کب اعلان کیا تھا؟ مگر ہم سب کو 28 جولائی یاد ہے تو سرکار کو سب کچھ الگ زاویے اور نکتہ نظر کے ساتھ یاد ہے۔ سرکار کی راجی مچی کے خلاف اقدامات آہستہ آہستہ اس کی حواس باختگی کے ساتھ ساتھ نظر ارہے ہیں۔ سرکار کی اولین کوشش راجی مچی کو ناکام بنانے پر ہوگی اگر ایسا نہ ہوسکتا تو سرکار یہ کوشش کرے گی کہ یہ راجی مچی محدود سے محدود تر کیا جاسکے۔ سرکار جوں جون 28 جولائی قریب آتی جائے گی سراسیمگی میں اپنے مسائل میں اضافہ کرتا جائے گا اپنا خوف بڑھاتا جائے گا یہ سب ہمیں سرکار کے رویے اور اس کے اقدامات سے نظر بھی آئیں گے اس کے بعد سرکار سختی کرے گی اپنے بلوچ ملازمین کو نوکری سے ہٹانے کی دہمکی دے کر راجی مچی سے دور کرنے کا اعلان کرے گی اور ایسا کیا گیا ہے۔
سرکار نے راجی مچی کی ناکامی کے لیے اب تک آواران اور مستونگ سے جھدکار عورتوں کو گرفتار کیا ہے جو چاکنگ کررہی تھیں۔ کراچی اور کیچ سے سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے جو چندہ جمع کررہے تھے۔ اچانک سرکار نے پورے بلوچستان میں ڈپٹی کمشنرز کے زریعے چندہ اکٹھا کرنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ ضلع کیچ سے نصف درجن سیاسی کارکنوں کو سرکار نے نظر بند کرنے کے آرڈر جاری کیے ہیں۔ ضلع کیچ، گوادر، پنجگور اور خضدار سے بلوچ دوست سرکاری ملازمین کو شوکاز کیا جا کا ہے جب کہ مکران ڈویژن میں مقامی صحافیوں کو راجی مچی اور بی وائی سی کی کوریج پر سختی سے منع کرنے کا فرمان دیا جاچکا ہے۔ ضلع کیچ اور خضدار میں بلوچ دوست دکان داروں کو ایف سی کیمپ، ڈپٹی کمشنر آفس اور خفیہ اداروں کے آفسز بلاکر راجی مچی سے دور رہنے یا بصورت دیگر ان کے کاروبار پر پابندی اور دکانوں کو بند کرنے کی دہمکیاں دی گئی ہیں۔ ان سب کے علاوہ 28 جولائی تک سرکار اور بھی کچھ اقدامات اٹھا سکتی ہے ممکنہ طور پر راستوں کی ناکہ بندی کی جاسکتی ہے، سڑکیں بند کی جاسکتی ہے ہوسکتا ہے سیاسی کارکنوں کو کہیں کہیں گرفتار کیا جائے یا لاپتہ کیا جائے۔

مگر ان سب کے ہوتے ہوئے ایک عام بلوچ کو نیک نیتی اور ایمان داری سے اپنا سارا توجہ راجی مچی کی کامیابی کے لیے مرکوز کرنی چاہیے۔ عام بلوچ کو ڈر اور خوف سے نکل کر اپنا سارا فوکس راجی مچی کی کامیابی کے لیے پرکھنا چاہیے۔ ہمارے اردر گرد کچھ سوشل میڈیا کے دانش ور چند ایک فالتو سیاسی ورکر مذید ڈر اور خوف پھیلانے کی کوشش کریں گے وہ حالات کا تقابلی جائزہ لے کر ریاست کی طاقت کا بھرم رکھنے کی جتن کریں گے، یہ لوگ کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے 2008 سے ریاست کی لاپتہ افراد کی پالیسی پھر مسخ شدہ لاشوں کا زکر چھیڑ کر ریاست کی خوف کو مستحکم بنانے کی کوشش کریں گے مگر یاد رکھا جائے حالات بدل رہے ہیں بلوچ سیاسی ماحول بھی بدل گئی ہے بلوچ قیادت بھی بیس سے پچیس سالہ سیاسی نشیب و فراز کا وسیع ترین تجربہ رکھتی ہے یہ راجی مچی ایک عام اجتماع نہیں قومی بقا کے لیے ایک انتہائی اہم مچی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔