بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ اور پاکستان کا رشتہ روز اول سے واضح ہے ، بلوچستان ایک کالونی پاکستان قابض ، پنجابی استعماری طاقت اور بلوچ ایک محکوم قوم ہے۔راجی مچی کو طاقت کے ذریعے روک کر پاکستان نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے بھی پرامن جدوجہد لاحاصل ہے لیکن ریاستی تشدد کے برعکس بلوچ پرامن مزاحمتی جدوجہد جاری رکھیں گے۔آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ نہتے ، پرسکون اور پرامن لوگوں پر بلا اشتعال گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔ یہ سوال صرف بلوچ کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ہے کہ کیا پاکستان میں بلوچ قوم ایک محفوظ اور پرامن زندگی گزار سکتی ہے؟
انھوں نے کہا بلوچ یکجہتی کمیٹی انسانی حقوق کی ایک عوامی تحریک ہے جس نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف گوادر میں ’ راجی مچی ‘ کے نام پر قومی اجتماع کی کال دی تھی۔ اس تحریک کے مطالبات ان حقوق کی بحالی ہے جس کی ضمانت پاکستان کا آئین بھی دیتا ہے۔اگر پاکستانی ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا تو یہ اجتماع مکمل پرامن ، پرسکون اور محفوظ ہوتا لیکن پاکستانی فوج نے ہر شہر ، ہر موڑ اور ہر شاہراہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور لوگوں کو روکنے کے لیے ان کا خون بہایا گیا۔بی وائی سی سمیت انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہر فرد کے گرد گھیرا تنگ کیا اور کئی راہنماء جبری لاپتہ کیے۔پاکستانی فورسز کی براہ راست فائرنگ سے درجنوں افراد زخمی ہوچکے ہیں اور اب تک کم از کم دو مصدقہ ہلاکتوں کی اطلاع ہے جنھیں پاکستانی فورسز نے گوادر میں گولیاں مار کر قتل کیا.
ترجمان نے کہا گوادر کا مکمل محاصرہ کیا گیا ہے، گوادر کے زمینی راستے بند اور موبائل سروس منقطع کیے گئے ہیں۔وہاں کی درست صورتحال معلوم کرنا مشکل بنا دی گئی ہے۔ آخری معلومات تک متحرک انسانی حقوق کے کارکنان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے تھے ، کئی لوگوں کے شناختی کارڈ ، موبائل سم اور بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ایک مکمل پرامن جلسے کے خلاف طاقت کا اس پیمانے پر استعمال پاکستانی جمہوریت اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام جمہوری اداروں کی منہ پر لگی مستقل کالک ہے یہ کبھی بھی صاف نہیں ہوگی۔ جبر کے باوجود بلوچ قوم نے جلسہ گاہ کے مقام پر اکھٹا ہونے کی کوشش کی ، ہزاروں لوگ جمع ہوئے جو قابض کی بالادستی کے خلاف بلوچ قوم کا فیصلہ ہے کہ بلوچ سرزمین پر قبضہ اور جبر منظور نہیں۔
انھوں نے کہا پاکستان کا وجود بلوچ قومی بقاء کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جس کے خاتمے سے ہی بلوچ قوم کو نجات ملے گی۔ تمام بلوچ قوتوں کو مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہوگا ۔ تمام تر اختلافات اور نظریاتی تضاد کے باوجود مشترکہ قومی مفادات واضح کرنے ہوں گے جس پر ہر بلوچ کو ’ بلا تفریق سیاسی جماعت و نظریات ‘ متفق ہونا ہوگا۔
امریکی امداد کی تجویز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ترجمان نے کہا امریکی انتظامیہ کی چند شخصیات اپنی حکومت سے پاکستان کے لیے امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر ہمیں تشویش ہے ۔ یہ انسانی اقدار سے روگردانی ہے کہ پاکستان جیسے ملک پر جس میں انسانیت کی کوئی قدر نہیں امریکی شہریوں کے خون پسینے سے اکھٹے کی گئی رقم خرچ کی جائے۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں پاکستان امریکی امداد کو انسانیت کے خلاف حتی کہ امریکی مفادات کے خلاف بھی استعمال کر تا رہا ہے۔
’ امریکی حکومت اور سینیٹرز سے گزارش ہے کہ وہ پاکستان جیسے ملک کی مدد کی بجائے کھل کر بلوچستان کی تحریک آزادی کی حمایت کریں۔ بلوچ ، پشتون ، سندھی اور دیگر محکوم اقوام کی براہ راست مدد سے خطے کی صورتحال بدل جائے گی جس سے دنیا کا فلاح ہوگا۔‘
انھوں نے کہا بلوچستان میں ’ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ جیسے انسانی حقوق کے معتبر اداروں کے ذمہ داران کو بھی انسانی حقوق کی صورتحال اجاگر کرنے پر قیدو بند اور دھمکیوں کا سامنا ہے یہ وہ بدترین صورتحال ہے جسے بہتر بنانے کے لیے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کو فوری مداخلت کرنی چاہیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ بلوچستان کی صورتحال کی بہتری میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔