دوحہ کانفرنس: افغان طالبان کا مغرب سے تعلقات استوار اور خواتین پر پابندیاں نظر انداز کرنے پر زور

200

اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں لگ بھگ دو درجن ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندوں کی دو روزہ کانفرنس قطر میں شروع ہوگئی ہے جس میں افغان طالبان کا وفد بھی شریک ہے۔

اتوار کو شروع ہونے والی کانفرنس میں افغانستان میں 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان نے اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ دہرایا۔ انہوں نے خواتین پر عائد کی گئی پابندیوں کو نقطۂ نظر کا اختلاف قرار دے کر مسترد کر دیا۔

طالبان کی جانب سے مغربی ممالک سے زیادہ روابط کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔

یہ پہلی بار ہے کہ طالبان نے افغانستان سے متعلق کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ کانفرنس کا سلسلہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے شروع کیا جسے عمومی طور پر ’دوحہ پروسیس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

مذاکرات کی صدارت اقوامِ متحدہ کی انڈر سیکریٹری جنرل روز میری ڈی کارلو کر رہی ہیں۔

اس کانفرنس میں شریک مندوبین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کی شرکت اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اہم تھی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی عدم شرکت اور طالبان کی شرکت پر افغانستان میں موجود خواتین کے حقوق کے کارکنوں اور افغانستان سے باہر بھی کانفرنس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اقوامِ متحدہ نے رواں برس فروری میں بھی اسی طرح کی ایک کانفرنس منقعد کی تھی جس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ افغانستان کے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے کارکنان کی شرکت کے سبب طالبان نے اس کانفرنس میں حصہ نہیں لیا تھا۔

اقوامِ متحدہ نے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اس بار کانفرنس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو مدعو نہیں کیا۔

گزشتہ برس مئی میں جب اس عمل کا پہلا راؤنڈ تھا تو طالبان کو اس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کابل سے آنے والے وفد کے سربراہ ہیں۔

کانفرنس سے خطاب میں ذبیح اللہ مجاہد نے زور دیا کہ افغانستان کے منجمد بین الاقوامی فنڈ جاری کیے جائیں اور اس کے بینکنگ کے نظام پر عائد پابندیوں کو ختم کیا جائے کیوں کہ اس سے افغانستان بین الاقوامی معاشی نظام سے کٹ کر رہ گیا ہے۔

ان کے بقول اس طرح کی پابندیاں افغانستان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں جو ان کی حکومت کا ہدف ہے۔

اس کانفرنس میں ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مندوبین بھی موجود تھے جن سے ذبیح اللہ مجاہد نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ افغان یہ سوال کر رہے ہیں کہ معاشی اور تجارتی پابندیوں میں نرمی کا عمل کیوں سست روی کا شکار ہے؟ حکومت اور نجی شعبہ متواتر مختلف چیلنجوں کا سامنا کیوں کر رہے ہیں؟

افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان کے برسرِ اقتدار آتے ہی امریکہ نے افغان سینٹرل بینک کے سات ارب ڈالر منجمد کر دیے تھے۔

بائیڈن انتظامیہ نے 2022 میں اس میں سے آدھی رقم سوئٹرزلینڈ میں ایک ٹرسٹ ’افغان عوام کے لیے فنڈ‘ کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی تھی۔ باقی بچ جانے والی رقم اب بھی امریکہ میں منجمد ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے خطاب میں لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے روزگار یا ان پر سفر پابندیوں کا واضح الفاظ میں ذکر نہیں کیا بلکہ انہوں نے اسے ثقافتی، مذہبی اور پالیسی کا اختلاف قرار دیا۔

اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے ایک حالیہ رپورٹ میں طالبان کی سخت گیر پابندیوں کو ’پوری عام آبادی پر حملہ‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ سے تعبیر کیا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے خطاب میں کہا کہ وہ اس بات سے انکار نہیں کرتے بعض ممالک کو اسلامی امارات کے اقدامات سے پریشانی ہو سکتی ہے۔

ان کے بقول پالیسی کے اختلاف کو اس حد تک نہیں بڑھانا چاہیے کہ طاقت ور ممالک اپنی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغان عوام پر سیکیورٹی، سیاسی اور معاشی دباؤ بڑھا دیں جس سے ہماری قوم کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کو اپنا مؤقف نرم کرنے کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ پر بھی تنقید کی۔انہوں نے ان ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کے داخلی معاملات کو بین الاقوامی تعلقات سے الگ رکھیں۔

طالبان کے ترجمان نے روس، چین اور دیگر ممالک سے اپنے بڑھتے ہوئے تعلقات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان مغرب کے ساتھ بھی روابط کے خواہش مند ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک بھی اسی طرح باہمی دو طرفہ مفادات کو ترجیح دیں گے۔

اتوار کو کانفرنس کے آغاز سے قبل طالبان کے وفد نے روس، سعودی عرب، بھارت اور ازبکستان کے مندوبین سے بھی دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔

افغانستان میں امریکہ کی دو دہائیوں تک جاری رکھنے والی جنگ کے خاتمے کے بعد اگست 2021 میں برسرِ اقتدار آنے والے طالبان کی عبوری حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ البتہ افغانستان میں 16 ممالک کے سفارتی مشن موجود ہیں اور چین وہ واحد ملک ہے جہاں طالبان کا سفیر مقرر ہے جب کہ بیجنگ نے بھی کابل میں اپنا سفیر مقرر کیا ہے۔

پاکستان کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سب نے اپنا مؤقف بیان کیا۔ یہ ایک اچھا عمل تھا۔ سب روابط کی بات کر رہے تھے۔ ان کے بقول یہ حقیقت ہے کہ طالبان کی شرکت سے واضح ہوا ہے کہ اقوامِ متحدہ بہت کچھ کر سکتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے خواتین کو اس کانفرنس میں مدعو نہ کرنے اور ان کے ایشوز ایجنڈے میں شامل نہ ہونے پر اس کانفرنس کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی بھی ملک نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ نہیں کیا۔

امریکہ، کینیڈا، ناروے سمیت دیگر مغربی ممالک اور یورپی یونین کے مندوبین اس کانفرنس میں شریک ہیں جب کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے نمائندے بھی مذاکرات کا حصہ ہیں۔

ایک مغربی سفارت کار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے دباؤ موجود تھا۔ اس کانفرنس سے بہترین فائدہ اٹھانے اور تعمیر کا احساس موجود تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا عمل ہے کہ طالبان سے معاملات کے لیے دنیا کے ممالک نے ایک منظم طریقۂ کار کا انتخاب کیا ہے۔ اب جب طالبان کے اقتدار کو تین برس ہونے والے ہیں افغانستان میں برسرِ اقتدار حکمرانوں اور بین الاقوامی برادری میں بڑی تقسیم موجود ہے۔

پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ مندوبین نے بند کمرے کی تقاریر میں خواتین کے حقوق کا معاملہ اٹھایا۔ طالبان نے اس پر نپے تلے جواب دیے جو ان کے لیے ایک مشکل معاملہ تھا۔

کانفرنس میں شرکا نے افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور خواتین کے حقوق کے معاملات پر خدشات کا اظہار کیا۔ لیکن اجلاس کے بعد طالبان کے وفد کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد کافی پر جوش تھے۔

میڈیا سے گفتگو میں ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ افغانستان سے متعلق تمام ممالک کا مؤقف مثبت تھا۔ کیوں کہ سب افغانستان سے تعاون کرنا چاہتے ہیں۔

اس کانفرنس میں شریک ایک سے زائد مندوبین نے وائس آف امریکہ کو آگاہ کیا کہ مذاکرات ایک اچھے ماحول میں ہوئے جب کہ اس کا ماحول بھی مثبت رہا جس سے مستقبل میں اس طرح کی مزید رابطے رکھنے کی راہ متعین کی۔

پیر کو بھی یہ کانفرنس جاری رہے گی جس میں افغانستان میں نجی کاروبار اور دیگر امور زیرِ بحث آئیں گے۔