اقوام متحدہ نے منگل کے روز جنوبی غزہ کی پٹی کے ایک بڑے حصے کے لیے اسرائیل کے انخلاء کے حکم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لاکھوں شہری متاثر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صحافیوں کو بتایا۔”خان یونس اور رفح میں 117 مربع کلومیٹر کے علاقے کو خالی کرنے کا کل دیا گیا حکم، غزہ کی پٹی کے تقریباً ایک تہائی حصے پر لاگو ہوتا ہے۔ یہ اکتوبر کے بعد سے، جب فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے انخلاء کا حکم دیا گیا تھا اس طرح کے سب سے بڑے احکامات ہیں۔”
فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی، UNRWA کا اندازہ ہے کہ اس حکم کے جاری ہونے کے وقت تقریباً ڈھائی لاکھ فلسطینی ان علاقوں میں مقیم ہو سکتے ہیں۔
دجارک نے کہا کہ ان علاقوں کے لوگوں کے پاس دوبارہ منتقل ہونے کا “ناممکن انتخاب” رہ گیا ہے، یعنی وہ ایسے علاقوں میں جائیں جہاں بمشکل کوئی جگہ یا سہولتیں موجود ہیں، یا وہیں مقیم رہیں جہاں وہ جانتے ہیں کہ لڑائی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ انخلاء کا نیا حکم 90 سے زائد ایسے اسکولوں کے علاقے پر محیط ہے، جن میں زیادہ تر بے گھر افراد کی رہائش ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں چار میڈیکل پوائنٹس ہیں۔
اسرائیلی فورسز نے منگل کے روز جنوبی غزہ کی پٹی میں حملے کیے، جس میں فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
غزہ کے 80 فیصد لوگ اب بے گھر ہو چکے ہیں۔
اسی اثنا میں اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق۔ اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے رابطہ کار نے کہا ہے کہ غزہ کے 80 فیصد لوگ اب بے گھر ہو چکے ہیں
غزہ کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر سگریڈ کاگ نے منگل کو کہا کہ 19 لاکھ لوگ، جو کہ علاقے کی 80 فیصد آبادی ہے، اب بے گھر ہو چکے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں خان یونس میں انخلاء کے نئے احکامات کی اطلاعات پر شدید تشویش ہے۔
اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کے خان یونس اور رفح کے کچھ حصوں کو چھوڑنے کے لیے اسرائیلی فوجی حکم نامے سے 250,000 تک لوگ متاثر ہوئے ہیں، جس کی کل آبادی 24 لاکھ ہے۔
غزہ کے لیے اقوام متحدہ کی کوآرڈینیٹر سگریڈ کاگ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ “غزہ میں فلسطینی شہری مصائب کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئے ہیں — ان کے گھر تباہ ہو گئے ہیں، ان کی زندگیاں تباہ ہو گئی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ10 لاکھ سے زیادہ لوگ ایک بار پھر بے گھر ہو گئے ہیں، جو بے بسی سے پناہ اور حفاظت کی تلاش میں ہیں، اور 19 لاکھ لوگ اب غزہ بھر میں بے گھر ہو چکے ہیں۔”
کاگ نے مزید کہا، “میں خان یونس کے علاقے میں انخلاء کے نئے احکامات کی اطلاعات پر گہری تشویش میں ہوں۔
“جنگ سے نہ صرف شدید ترین انسانی بحرانوں نے جنم لیا ہے، بلکہ اس نے انسانی مصائب کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔” رابطہ کار
انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ پٹی تک خاطر خواہ امداد نہیں پہنچ رہی ہے، اور انسانی تباہی سے بچنے کے لیے نئی کراسنگ، خاص طور پر جنوبی غزہ کے لیے کھولنا ضروری ہے۔
کاگ نے کہا کہ غزہ اور مصر کے درمیان رفح کراسنگ کو دوبارہ کھول دیا جانا چاہیے، اور ساتھ ہی عالمی برادری سے امدادی سرگرمیوں کے لیے مزید فنڈز فراہم کرنے کی درخواست کی۔
اس بحران کا ایک المناک پہلو، وہ مریض اور زخمی ہیں جن کا غزہ میں علاج ناممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رفح میں اسرائیلی آپریشن کے آغاز کے بعد سے غزہ میں داخل ہونے والے امدادی حجم میں “نمایاں کمی” ہوئی ہے۔
اسرائیلی فوج کے احکامات کے بعد غزہ کے دوسرے بڑے شہر میں ایک بار پھر زمینی کارروائی کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اسرائیل کی فوج کے حکم نامے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں کے ایک بار پھر منظم ہونے کی اطلاعات پر غزہ کے دوسرے علاقوں کی طرح خان یونس میں بھی کارروائی کی جائے گی۔
رواں برس خان یونس میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کے سبب شہر کا بیشتر حصہ تباہ ہوچکا تھا۔ خان یونس میں اسرائیل کی طویل کارروائی کے دوران زیادہ تر شہری رفح نقل مکانی کر گئے تھے۔ لیکن رفح میں بھی اسرائیلی فورسز کی کارروائی کے بعد بیشتر شہری واپس خان یونس آ گئے تھے۔
اسرائیل اور حماس کا حالیہ تنازع سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک 37 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔