فلسطینی مزاحمتی تحریک جس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو بدھ کی صبح ایرانی دارالحکومت میں نشانہ بنایا گیا ہے کون تھے؟ وہ ایک ایسا فلسطینی چہرہ تھے جو سفارتی سطح پر انتہائی مشکل صورت حال میں بھی سخت سے سخت ماحول میں بھی اپنی بات پوری شدت کے ساتھ کہنے کی شہرت رکھتے تھے۔
اسماعیل ہنیہ اکثر اپنے بیانات میں کہا کرتے تھے کہ ’’ہمارے لوگ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ اپنے حقوق کا دفاع کرتے رہیں گے۔‘‘
حماس کے ذرائع کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی عمر لگ بھگ 62 برس تھی۔ عسکری گروہ کے سیاسی ونگ کے سربراہ کے طور پر ان کا 2017 میں تقرر کیا گیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ فلسطینی علاقے غزہ پر اسرائیل کی طرف سے عائد سفری پابندیوں سے بچنے کے لیے ترکیہ اور قطر کے دارالحکومت دوحہ کے درمیان سفر اور قیام کرتے رہتے تھے۔
حالیہ ہفتوں میں انہوں نے ترکیہ، مصر، قطر اور ایران کا سفر کیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق اسماعیل ہنیہ 1980 کی دہائی میں حماس میں شامل ہوئے تھے اور انہیں 2004 میں مخصوص خفیہ رہنماؤں میں شامل کیا گیا تھا جب کہ 2006 میں وہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ اعظم نامزد ہوئے تھے۔
سال 2017 میں اسماعیل ہنیہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ ان کے تقرر کے کچھ عرصے بعد ہی امریکہ نے حماس کو خصوصی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ گزرتے برسوں کے ساتھ کئی بار مذاکرات کا حصہ بھی رہے اور انہوں نے اس سلسلے میں اپریل 2008 میں امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر سے بھی قاہرہ میں ملاقات کی تھی جب کہ رواں برس ہی ان کی ملاقاتیں قطر کے امیر شیخ حماد بن خلیفہ الثانی، چین کے سفارت کار وانگ کیجان سمیت ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان سے ہوئی تھیں۔
واضح رہے کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے کئی افراد غزہ جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
اپریل کے آغاز میں حماس نے بتایا تھا کہ اسرائیل کی بمباری میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے حازم، امیر اور محمد مارے گئے ہیں۔