جون میں پاکستانی فوج نے 54 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا – پانک رپورٹ

94

بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے “پانک” نے ماہ جون بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جون 2024 کے تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 12 مختلف اضلاع سے پاکستانی فوج نے54 افراد کو حراست میں لے کر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ۔ایک نوجوان نے خودکشی کرکے اپنی زندگی کاخاتمہ کردیا جبکہ پسنی سے جبری لاپتہ بہادر بشیر کی فیملی پر پاکستانی فوج نے تشددکیا۔

پانک نے اپنے رپورٹ میں بتایاہے کہ 20سالہ عقیل احمد سکنہ ملائی بازار تربت نے 20 جون 2024 کو خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا،دستیاب ڈیٹابتاتے ہیں کہ پورے خطے میں سب سے کم خودکشیاں بلوچستان میں ہوتے تھے ، سالوں سال کوئی انسان خود کشی کرتاتھالیکن مجموعی طورپر بلوچستان اس مسئلے سے محفوظ تھا لیکن فوجی آپریشنوں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں سے بلوچستان خصوصامکران میں خودکشیاں معمول بنتے جارہے ہیں ،خود کشی کرنے والے نوجوان ہی ہوتے ہیں ،آئیے اس کا ایک طائرانہ جائزہ لیں گے۔

عقیل احمد کی خودکشی :

عقیل احمدکو دومرتبہ پاکستانی فوج نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ، جبری گمشدگی کے دوران فوج نے اپنے خفیہ ٹارچرسیلوں میں اس نوجوان پر بہیمانہ تشددکیاجب وہ دوسری مرتبہ بازیاب ہوئے تو جسمانی و ذہنی صحت تباہ ہوچکا تھا ، اس کے لیے زندگی جینا مشکل امربن چکا تھا ،انہوں نے اپنی مشکلات کاحل اپنی زندگی کے خاتمے کے صورت میں کیا،یہ صرف عقیل احمدکا قصہ نہیں بلکہ آج کے بلوچستان میں ایسے ہزاروں کیس موجود ہیں ،صرف مکران میں حالیہ چند مہینوں میں متعدد خودکشی کے واقعات رونما ہوچکے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستانی فوجی سفاکیت،تشدد یا جبری گمشدگی کانشانہ بن چکے تھے۔

اکیس ویں صدی کے آغازکے ساتھ بلوچستان میں پاکستان نے فوجی کاروائیاں شروع کیں،پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی سفاکیت سے نہ صرف انسانی حقوق کی پائمالی ہورہی ہے بلکہ لوگوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کا صرف ایک مظہر نوجوانوں کی خودکشیوں کی صورت میں رونما ہورہی ہیں ۔

پانک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان کے ادارے “پانک ” نے بلوچستان کی حالات پر گہری نظررکھنے والے ایک معروف ماہرنفسیات سے رابطہ کیا۔ان سے بات چیت کاخلاصہ پیش خدمت ہے۔

1: PTSD (Post-Traumatic Stress Disorder)

ماہرنفسیات کے مطابق اس وقت بلوچستان میں PTSDوبا کی شکل اختیار کرچکاہے ،پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی، تشدد اورتسلسل کے ساتھ جاری فوجی آپریشنوں وبربریت کے واقعات کے باعث لوگوں میں PTSD عام ہو چکا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا افرادکے ذہن میں بار بار خوفناک تجربات تازہ رہتے ہیں ،انہیں یہ خوف ہرلمحہ دامن گیر رہتا ہے کہ وہ واقعہ دوبارہ رونما ہوجائے گا، اس عارضے میں مبتلا افراد کی زندگی عذاب بن جاتی ہے ۔

2: ڈپریشن

بلوچستان میں اب ڈپریشن عام بیماری کی شکل اختیار کرچکی ہے ،خودکشی کے واقعات کے وجوہات میں سے ایک اہم وجہ ڈپریشن اورذہنی دباؤ ہے، ۔ ڈپریشن، ناامیدی اور بے بسی کا احساس لوگوں کو خودکشی کی طرف مائل کرتا ہے۔یہی وجہ عقیل احمدجیسے بہت سے لوگ بازیاب ہونے کے بعداپنی زندگیوں کاخاتمہ کرچکے ہیں ۔

3: انزائٹی اور خوف

مسلسل فوجی جارحیت سے لوگوں میں انزائٹی اورمستقل خوف عام ہوچکاہے ، بلوچستان میں ہر تیسرا خاندان فوجی بربریت کے کسی نہ کسی قسم سے متاثر ہے ، اس وجہ لوگوں میں مستقل خوف پایاجاتاہے کہ کب انہیں یا ان کے پیاروں کو اٹھا لیا جائے گایا فوج انہیں تشدد کا نشانہ بنائے گا۔

2۔ماورائے عدالت قتل

بلوچستان میں ماورائے قتل مختلف صورتوں میں جاری ہے، ایک جانب پاکستانی فوج لوگوں خصوصاَ نوجوانوں کواٹھاکر ٹارچرسیلوں میں اذیت دے دے کر قتل کرکے ان لاشیں پھینکتاہے یہ سفاکانہ عمل گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل جاری ہے۔

دوسری جانب پاکستانی فوج نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں چور،ڈاکو،راہزن، منشیات فروش، لینڈمافیااورعادی مجرموں پر مشتمل مسلح جھتے بنائے ہیں جنہیں بلوچستان میں “ڈیتھ سکواڈ” کہاجاتاہے، حقیقی معنوں میں یہ پاکستان فوج کے آلہ کار ہیں، جنہیں بلوچ قوم پرستوں کے خلاف مختلف مواقع پر مختلف صورتوں میں فوج استعمال کرتا ہے، یہ مسلح جھتے کسی قاعدے قانون کے پابندنہیں ہیں، لوٹ مار، چوری چکاری،لوگوں کو گرفتارکرنے میں فوج کی معاونت یا خود اغواکرکے فوج کے حوالہ کرنے کے علاوہ یہ فوج کے کہنے پر قوم پرست اورانسانی حقوق کے کارکنوں کوماورائے عدالت قتل کرتے ہیں

اسی طرح ماہ جون میں پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ مسلح جھتے نے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ سے نوید لعل نامی نوجوان کو جبری لاپتہ کرنے کے بعد ان کی گولیوں سے چھلنی لاش ضلع پنجگور میں پھینک دی گئی۔ اسی طرح13جون 2024کو پنجگور میں ایک اور واقعے میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے عبدالباسط بلوچ سکنہ خاران کے گھر پر دھاوا بول دیا اور گھر میں موجود عبدالباسط کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا اور ان کی اہلیہ زکیہ بلوچ کو زخمی کردیا۔ اس طرح کی کاروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔

3۔ جبری لاپتہ افراد کی بلوچستان میں احتجاجی دھرنے اور مظاہرے۔

بلوچستان کے مکران ڈویژن کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز کے ماورائے عدالت کاروائیاں اور جبری گمشدگی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔ عیدالاضحی ٰکے دن شروع ہونے والے احتجاجی دھرنے تاحال تربت شہر میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر سامنے دھرنے کی شکل میں موجود ہے جبکہ ساحلی علاقے پسنی سےجبری لاپتہ بلوچ طالب علم بہادر بشیر کے لواحقین نے دو مرتبہ کوسٹل ہائی وئے کو بند کردیا گیا تھا۔ ماہ جون میں شدید تپتی دھوپ اور سخت گرمی کے باوجود جبری لاپتہ افرادکے لواحقین اپنے پیاروں کی باحفاظت بازیابی کیلئے ملکی اداروں سے مطالبہ کررہی ہیں کہ انھیں عدالتوں کے سامنے پیش کرکے ان پر عائد مقدمات کو سامنے لایا جائیں۔

ایک جانب لوگ بے بسی کی تصویر بن احتجاج کررہے ہیں تو دوسری جانب لوگوں کی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے، ان احتجاجوں کے شرکاء خصوصا خواتین پر فوج نے حملہ کردیا، لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایااوردھمکی دی کہ اگر احتجاج کو ختم نہیں کیاگیا تو وہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں ، بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے سنگین نتائج کا مطلب یا تو قتل ہوتا ہے یا طویل جبری گمشدگی۔

پانک نے اپنے رپورٹ کے آخر میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کی تفصیلات جاری کی ہے رپورٹ کے مطابق کیچ سے 17، آواران سے5،خضدارسے3،ڈیرہ بگٹی سے9، بارکھان سے2،سرگودھاپنجاب سے 2، سبی سے1،ڈیرہ غازی خان سے2، چاغی سے1،گوادر سے4،خاران سے2، مستونگ سے 6 افراد کو پاکستانی فوج نے حسب معمول حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا۔