جبری لاپتہ کمال بلوچ کو سی ٹی ڈی نے ایک سال قبل جعلی مقالے میں قتل کر کے لاوارث تدفین کی

288

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہونے والے کمال بلوچ کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلے میں قتل کردیا ہے، اہل خانہ نے بھی کمال بلوچ کی قتل کی تصدیق کی ہے۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ کمال بلوچ ولد محمد نصیب گچک جوری کا رہائشی ہے جسے پاکستانی فورسز نے 15 اگست 2022 کو ان کے گھر سے دیگر کئی افراد کے ساتھ اغوا کیا تھا۔ باقی سب کو مختلف اوقات میں رہا کیا گیا مگر کمال بلوچ کو تین دیگر لاپتہ افراد عبدالقیوم زہری، ناصر فاروق اور غلام جان کے ساتھ سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلے میں قتل کرکے ان کی میتوں کو شال کے ہسپتال پہنچایا گیا تھا تاہم ان کی شناخت نہ ہونے کے باعث انہیں مستونگ میں نامعلوم افراد کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

بعد ازاں سی ٹی ڈی نے خضدار اور آواران ضلعی انتظامیہ کو ان کی شہادت سے متعلق خط لکھا تھا کہ ناصر فاروق سکنہ زہری صادق آباد، غلام جان سکنہ بائی پاس کوئٹہ، عبدالقیوم ولد زری خان سکنہ زہری خضدار، کمال خان ولد باھوٹ سکنہ جلی آواران مارے گئے ہیں۔ سی ٹی ڈی نے اپنے خط میں قتل ہونے والوں کو دہشت گرد قرار دیا تھا ۔

انھوں نے مزید اعتراف کیا تھا کہ ان افراد کو نامعلوم سمجھ کر لاوارث دفن کیا گیا ہے۔

23 جون 2023 کو لاپتہ ہونے والے عبدالقیوم اور ناصر فاروق کی شناخت ان کے ورثا نے کی لیکن کمال خان کی شناخت نہیں ہوسکی تھی۔

اہل خانہ کی جانب سے 10 جولائی 2024 کو ایک بیان جاری کیا گیا جس میں ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس بیان کے بعد معاملے کی تحقیقات کی گئی اور گمشدہ کمال کے قتل کا معاملہ سامنے آیا ۔ جب سی ٹی ڈی کا خط اور کمال کا شناختی کارڈ دکھایا گیا تو کمال کے قتل کی تصدیق ہوگئی اور اس کے اہل خانہ نے اس کی قتل کی تصدیق کی ہے۔

اہل خانہ نے بلوچستان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سی ٹی ڈی نے اسے بے گناہ قتل کیا اور ہمیں اس کی آخری آرام گاہ دکھائی جائے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ یہ ہمارے بیٹے کی قبر ہے تاکہ ہم اس کی قبر پر جا کر دعا کر سکیں۔

انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور بلوچ قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ کمال کے قصور کا پتہ لگانے اور اس کی آخری آرام گاہ دکھانے میں ہماری مدد کریں۔

کمال خان کا خاندان گچک جوری میں رہتا ہے اور یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں وہ مویشی پالتے ہیں۔ جہاں بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔