تشدد کا حقیقی چہرہ ۔ الماس بلوچ

225

تشدد کا حقیقی چہرہ

تحریر: الماس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

قومی تحریکوں میں ہم اکثر و بیشتر تشدد کی بنیادی حس کو سمجھنے میں اُس حد تک ناکام ہوتے ہیں جس حد تک ہمیں جاننا چاہیے۔ ہم اسے انتہا پسندانہ فعل، شدت آمیز سرگرمی یا نفسیاتی دباؤ کے اثرات کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ تشدد کی حقیقی روح کی منافی ہے۔ اتنا ہی نہیں، ہم انہی تحریکوں کے جنگجوؤں کو یا تو حیوان، ظالم، جذبات سے حاری، بے دل سمجھتے ہیں، یا یہ کہہ کر قصہ مختصر کر دیتے ہیں کہ بھئی! یہ تو انسانی اوصاف سے بہت پرے نکل چُکے ہیں جن کا تعاقب کرنا ناممکن ہے۔ اسکے علاوہ ہم جنگ کے بنیادی محرکات کو پرکھنے کے کیلئے پریکٹیکل فیلڈ کو پرے رکھ کر کتابوں کو دیمک کی طرح چاٹتے ہیں اور آخرِ وقت یہ نتیجہ نکال کر بیٹھ جاتے ہیں کہ تشدد غیر انسانی و غیر اخلاقی عمل ہے۔ لہٰذا ہم اس کی بنیادی حس کو چھونے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور انقلابی تقاضوں سے دور ہٹ کر خیالی و تخیلاتی گرداب میں دھنس جاتے ہیں۔

دراصل جب بھی اقوام کا سامنا ایک ایسے دشمن سے رہا ہے جو تشدد کو اول و آخر اسلحہ سمجھتے تھے، تو اُن اقوام کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے دیر نہ لگتا کہ ردِعمل کیا ہونا چاہیے۔ انہوں نے اینٹ کا جواب اس لیے پتھر سے دینے کی سعی کی کیونکہ انکے نزدیک اینٹ کے ردِعمل میں پھولوں کی بوچھاڑوں سے کام نہیں چل سکتا۔ اسی ضمن میں فرانز فینن لکھتے ہیں کہ:

‏Decolonisation is always a violent phenomena.”

یعنی کسی بھی نوآبادکار سے نجات کا رستہ ہمیشہ پُرتشدد اور کٹھن ہوتا ہے۔ بغیر تشدد کے نہ نجات کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں نہ ہی درمیانہ رستہ نکل سکتا ہے۔ لیکن تشدد کو سعی معنوں میں سمجھنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ذریعہ نہ تو زبردستی قومی تحریکوں میں گھسیٹا جاسکتا ہے، نہ ہی غیر ارادتاً نزول فرماتی ہے۔ بلکہ حقیقت میں جب قومی و انقلابی تحریکوں میں دشمن کی طرف سے کیے گئے تشدد سے تمام الجھنوں، مصیبتوں کے حل مسخ کر دیے جاتے ہیں تب ان حصاروں سے نکلنے کیلئے تشدد وہ واحد حل بچ جاتا ہے۔ اسی لیے تاریخ کے اوراق میں دیکھا جائے تو یہ جواز ملتا ہے کہ انقلابی جہدکاروں نے کبھی بھی تشدد کو دانستہ طور پر نہیں چُنا بلکہ اِس نے(تشدد نے) تحریکوں میں اپنے آپ جگہ بنائی۔ ان جنگجو انسانوں کیلئے اس سے بڑھ کر عزاب کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی دفاع و آزادی کیلئے اپنے جیسے انسانوں کا قتل کریں، لیکن طاقت کو یہی زبان راس آتی ہے۔

جنگ کبھی بھی سنسنی خیزیت، اِونچر و لذت کیلئے لڑی نہیں جاتی۔ مرنے اور مارنے میں کونسی اڑونچر و لذت؟ یہ تو تباھی اور بربادی لاتی ہے۔ سنسنی خیزیت کے خوائش مند جنگ کی تند و پیچ سے بوکھلا کر تھک جاتے ہیں بلکہ جنگ کو مجبوری کی بنا پر لڑے والے آخری ہچکی تک محاذ کو ذمہ داری سے سنبھالتے ہیں۔ انکا عقیدہ ہے کہ جنگ کی بدولت آزادی کی کرنیں کلتی ہیں جن ہی کی خاطر وطن کے شہزادے بارود جیسے خطرناک شئے کو سینے پر باندھ کر دشمن سے نبردآزما ہوتے ہیں۔ دورانِ محاذ تمام جہدکاروں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ سامنے والا دشمن بھی صرف خون و گوشت کا مالک نہیں بلکہ وہ بھی جذبات سے بھری دل رکھتا ہے۔ فقط جہدکاروں اور فوجی لشکر میں فرق نظریہ، اجتماعی منشور و فکر اور بنیادی مقصدیت کی ہے۔

اکثر جنگوؤں کو موسیقی، ادب اور آرٹ سے بے پناہ محبت ہوتی ہے جو اس بات کی گوائی دیتی ہے کہ ایک انسان جو رومانیت، الفت، شبنم و تبسم، سنگیت و سرگم، زلف و لٹوں کا شیدائی ہے وہ کیسے ایک(sadist) و سائیکو ہو سکتا ہے؟ وہ کیسے ظالم، جابر، قاتل اور جذبات سے حاری روح کا مالک ہو سکتا ہے؟ کیا ہم حقیقی تصویر کو پرکھنے میں ناکام نہیں ہوئے ہیں کہ ایک دیوانے کو یہ سوچ کر رد کر رہے ہیں کہ یہ بندوق بردار ہے اور ہمیں امن کا پرستار بننا ہے؟ کیا ادب، موسیقی اور آرٹ سے محبت اس بات کی گوائی نہیں دیتی ہے کہ یہ سپوت نازک و موم دل رکھتے ہیں؟ کیا اپنے جھرنوں، ندیوں، گھاٹیوں، پربتوں ، گلی کوچوں کی حفاظت پر معمور ہونا اور ان کا بہ ذریعہِ طاقت دفاع کرنا سہی نہیں؟اگر ہاں تو پھر ان منچلوں، دیوانوں کا رستہ کیوں تنگ کیے ہوئے ہیں؟

اسکے علاوہ دیکھا گیا ہے کہ دورانِ محاذ بہت سارے سپائی مختلف نفسیاتی بیماریوں جیسے PTSD، انزائٹی، ڈپریشن وغیرہ کے شکار رہ چکے ہیں جو اس بات کی گوائی دیتی ہے کہ مسلسل تشدد، خونریزی دیکھنے یا کرنے سے اُنکے اوذان منتشر ہو چکے ہیں۔ لیکن وطن کے لہلہاتے فصلوں، سرسبز باغوں، بلند و بالا چوٹیوں کی الفت میں چُور یہ سپوت ان تمام الجھنوں اور مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے اس امید کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں کہ مستقبل میں آنے والے نسلوں کا سامنا ان قہر و آفات سے نہ ہو۔ ان عظیم سپوتوں کے دل بھی عیش و آرام، آسائش و سہولیات کی خاطر دھڑکتے نہیں تکتے۔ وہ بھی اکثر و بیشتر یہ سوچ کر سُکھ کی سانس لیتے ہیں کہ آزادی و کامیابی کے بعد وہ اپنے باغات میں گُلاب، چمبیلی، سرسوں کے پودے اُگائیں گے اور شام کے اوقات اپنے آزاد پوتے اور پوتیوں سے ادب، فلسفلہ، نفسیات، سائنس، سیاست اور معاشیات کے بارے میں طویل بحث و مباحثہ کریں گے۔ ایسی سوچ کے مالک جنگجوؤں کو بھلا کوئی کیسے ظالم، سیڈِسٹ، سائیکو، قاتل و جابر کہہ سکتا ہے جو جنگ کی تباکاریوں سے واقف ہو کر بھی اس کو غلامی و ذلت سے نجات کا رستہ سمجھتے ہیں اور یہ خوائش رکھتے ہیں کہ وہ آزادی کے بعد بندوق، بارود، خون و خونریزی سے اپنے خاندانوں کے چشم و چراغوں کو بچا کر رکھیں گے اور انہیں جدید تعلیم و تہذیب سے آراستہ کریں گے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔