بھارت: مذہبی تقریب میں بھگدڑ سے 121 ہلاکتیں

111

بھارت کی ریاست اُتر پردیش کے شہر ہاتھرس میں منگل کو مذہبی اجتماع میں مچنے والی بھگدڑ میں ہلاک افراد کی تعداد 121 تک پہنچ گئی ہے۔

مقامی پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ تاہم ‘ست سنگ’ (مذہبی خطاب) کے لیے یہ مذہبی اجتماع منعقد کرانے والے بھولے بابا پولیس کی گرفت سے دور ہیں۔

مذہبی پیشوا سورج پال عرف نرائن ساکار ہری عرف بھولے بابا کے خطاب کے بعد یہ حادثہ ہوا تھا۔ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق منتظمین نے تقریب میں پہنچنے والے متوقع عقیدت مندوں کی تعداد 80 ہزار بتائی تھی جب کہ اس میں ڈھائی لاکھ لوگ پہنچ گئے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق تقریب کے منتظمین نے ضابطوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تاہم شکایت میں بھولے بابا کا نام شامل ہونے کے باوجود رپورٹ میں انہیں ملزم نامزد نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ تقریب کے منتظم اور ان کے معاون دیو پرکاش مدھوکر اور دیگر کا نام ایف آئی آر میں شامل ہے۔ لیکن تاحال کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ منتظمین نے ٹریفک مینجمنٹ کی ذمے داری سے لاپروائی برتی اور حادثے کے بعد حقائق کو چھپانے کی کوشش کی۔

ریاست اتر پردیش کے چیف سیکریٹری منوج کمار سنگھ نے خبر رساں ادارے ‘پریس ٹرسٹ آف انڈیا’ (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ بھگدڑ کی ایک وجہ گنجائش سے زیادہ بھیڑ تھی۔

انہوں نے کہا کہ منتظمین نے ‘ست سنگ’ کے انعقاد کی اجازت کے لیے جو درخواست دی تھی اس میں 80 ہزار افراد کی شرکت کا کہا گیا تھا جب کہ وہاں پہنچنے والے لوگوں کی تعداد ڈھائی لاکھ تھی۔

ہاتھرس کے ایک پولیس عہدے دار امرت جین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے تاحال 38 لاشیں حاصل کی ہیں جن میں سے 36 کی شناخت کر لی گئی ہے جو ضروری قانونی کارروائی کے بعد ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے لوگ اپنے عزیزوں کی لاشیں حاصل کرنے کے لیے پریشان ہیں۔

منگل کو حادثے کے بعد جب ریاست کے پولیس سربراہ پرشانت کمار سے پوچھا گیا کہ کیا بھولے بابا کو گرفتار کیا جائے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ سرِدست ہر بات کی جانچ ضروری ہے۔ ہم کسی نتیجے پر پہنچ کر جانچ کو متاثر کرنا نہیں چاہتے۔ جانچ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔

حادثہ کیسے ہوا؟

سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) نے ہاتھرس میں بھگدڑ مچنے کی وجوہ پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی رہنما اپنے خطاب کے بعد واپس جانے لگے تو عقیدت مند ان کی کار سے اٹھنے والی دھول کو سمیٹنے کے لیے کار کی جانب لپکے۔

اس پر ان کے نجی محافظ لوگوں کو دھکا دے کر بھولے بابا کی گاڑی سے دور کرنے لگے۔ اس کوشش میں متعدد افراد زمین پر گر گئے اور کچلے گئے۔

رپورٹ کے مطابق اس افراتفری میں بہت سے لوگ کھلے میدان کی طرف بھاگے اور پھسل کر گر گئے۔ ان کے پیچھے آنے والے ان پر گرے اور اس طرح وہ سب روندے گئے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سورج پال کے ’سیوا دار‘ کہلانے والے نجی محافظ بابا کے قریب پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کو لاٹھی ڈنڈوں سے روک رہے تھے۔ نتیجتاً بہت سے لوگ زمین پر گر گئے اور ان کے نیچے دبنے والے لوگوں کا دم گھٹ گیا جس سے کئی متعدد افراد کی موت واقع ہو گئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حادثے میں 121 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 28 زخمی اسپتال میں داخل ہیں۔

’حادثہ تھا یا سازش؟‘

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بدھ کو ہاتھرس کا دورہ کیا اور زخمیوں سے ملاقات کی۔

انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم’ (ایس آئی ٹی) حادثے کی جانچ کرے گی۔ 24 گھنٹے کے اندر رپورٹ داخل کر دی جائے گی۔

وزیر اعلیٰ نے لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ پولیس معاملے کی تہہ تک جائے گی اور سازش کے ذمہ داروں کو سزا دے گی۔ ریاستی حکومت اس پورے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اس کا پتہ لگایا جائے گا کہ یہ حادثہ تھا یا کوئی سازش۔

انھوں نے مزید کہا کہ حادثے کے بعد مذہبی تقریب کے منتظمین فرار ہو گئے۔ انھوں نے اس واقعے پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش کی۔ انھوں نے اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے اعلی حکام کے ساتھ میٹنگ کی۔

فرانزک محکمہ کے متعدد اہل کار جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھا کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں کیا کچھ ملا ہے وہ سردست اس پر بات نہیں کر سکتے۔ تاہم انھوں نے بتایا ہے کہ جائے وقوعہ سے انہیں جوتے اور عقیدت مندوں کی زمین پر بچھائی گئی شیٹس اکٹھا کی ہیں۔ لیکن کوئی خاص چیز نہیں ملی ہے۔

عینی شاہدوں نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اتنے بڑے مجمعے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے صرف 40 پولیس اہل کار تعینات تھے۔ بھگدڑ کے دوران لوگ ان کے اوپر بھی گرے تھے۔

اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر و رکن پارلیمان اکھلیش یادو نے ایک بیان میں کہا کہ حادثے کی ذمہ دار انسانی غلطی کو تلاش کرنے اور اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تفصیلی جانچ اور کارروائی سے ایسے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ انھوں نے حادثے کے لیے ریاستی حکومت کو ذمہ در ٹھہرایا۔

کانگریس رہنما اور ریاست کرناٹک کے وزیر پریانک کھڑگے نے اترپردیش کی یوگی اور مرکزی حکومت پر تنقید کی اور ان پر اس حادثے کے سلسلے میں روا روی والا رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔

دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے بھی حادثے کے سلسلے میں یوپی اور مرکزی حکومت پر تنقید کی ہے۔

جب کہ مرکزی وزیر جیتن رام مانجھی نے کہا کہ یہ افسوسناک حادثہ ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو پارلیمان میں تقریر کے دوران اس پر اظہار تعزیت کیا تھا۔ ریاستی اور مرکزی حکومت تمام ضروری تعاون دیں گی۔ متاثرین کو مناسب معاوضہ بھی دیا جائے گا۔

سورج پال عرف بھولے بابا کے بارے میں میڈیا میں مختلف قسم کی خبریں آ رہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق وہ اپنے متنازع ’ست سنگ‘ (مذہبی خطاب) کے بارے میں معروف ہیں۔ ان پر جنسی استحصال سمیت متعدد الزامات ہیں۔

آگرہ، اٹاوہ، کاس گنج، فرخ آباد اور ریاست راجستھان میں ان کے خلاف مختلف مقدمات درج ہونے کے باوجود ان کے عقیدت مندوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی اور ان کی تقاریب میں عقیدت مندوں کی آمد جاری رہی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھولے بابا منگل کی شام کو مین پوری میں اپنے آشرم پہنچے جہاں بڑی تعداد میں ان کے عقیدت مند موجود تھے۔ پولیس نے ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی، بابا کسی سے نہیں ملے۔

رپورٹس کے مطابق پولیس نے ان کے آشرم کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ وہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی کھڑی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

پولیس ملازمت سے بھولے بابا تک

اترپردیش کے کاس گنج کے بہادر نگر کے سورج پال 1997 میں جنسی استحصال سے متعلق ایک مقدمے میں پھنسنے سے قبل پولیس میں ملازمت کرتے تھے۔ لیکن اس معاملے میں جیل سے رہا ہونے کے بعد انھوں نے پولیس کی ملازمت چھوڑ دی اور ایک مذہبی گرو یا خود ساختہ بھگوان بن گئے۔

انھوں نے اپنا نام ساکار وشنو ہری بابا رکھا اور ان کے عقیدت مند انھیں بھولے بابا کہنے لگے۔

انھوں نے اپنے آبائی گاؤں میں ایک آشرم بنایا جہاں عقیدت مندوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی۔

بھگوان بننے سے قبل وہ اترپردیش پولیس میں سپاہی تھے۔ بعد ازاں ہیڈ کانسٹبل ہوئے۔ لیکن انھوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔

ست سنگ شروع کیے جانے کے بعد ان کو بھولے بابا اور ان کی اہلیہ کو ماتا شری کہا جانے لگا۔

ان کے پروگرام میں لوگ اپنے امراض لے کر پہنچنے لگے۔ بابا کا دعویٰ ہے کہ وہ مریض کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر بیماریاں دور کر دیتے ہیں۔