بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پرتشدد مظاہروں میں 35 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں طلبہ سنہ 1971 کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کے خاندان کے افراد کے لیے ملازمتوں کے کوٹے کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جمعے کو ان مظاہروں کے دوران نرسندگی جیل پر بھی دھاوا بولا گیا جہاں سے سیکڑوں قیدی فرار ہو گئے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے دفتر نے ملک میں کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا۔ حکومت کے پریس سیکریٹری نعیم الاسلام نے کہا کہ ملک میں امن لانے کی خاطر فوج طلب کر لی گئی ہے۔
انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے سویلین اتھارٹیز کی مدد کے لیے کرفیو کے نفاذ اور فوج طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں میں اب تک 67 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ تاہم ملک کے کچھ حصوں میں مکمل کمیونیکشن کا نظام معطل ہونے کی وجہ سے مرنے والوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک میں موبائل انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کا نظام بھی متاثر ہے۔
اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں کے بعد ٹرین سروس بھی روک دی گئی ہے جبکہ ڈھاکہ سے سامنے آنے والی تصاویر میں مظاہروں پر قابو پانے والی پولیس کی بھاری نفری دیکھی جاسکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں تعلیمی ادارے تا حکم ثانی بند رہیں گے۔
مگر اس سب کے باوجود مظاہروں کے سلسلہ جاری ہے۔ مظاہرین نے ملک بھر میں اہم شاہرائیں بند کر دی ہیں۔
جمعے کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے باہر والدین کی بڑی تعداد کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے طلبہ ’میرٹ، میرٹ‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور ’ہم اپنے بھائیوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔‘
بنگہ دیش کے طلبہ کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں کوٹہ سسٹم ان کے حقوق کی نفی کرتا ہے اور انھوں نے میرٹ پر ملازمتیں دینے کے مطالبات کیے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس وقت مروجہ کوٹہ سسٹم حکومت کی حمایت کرنے والوں کے فائدے میں جاتا ہے۔ رواں برس جنوری میں شیخ حسینہ واجد چوتھی بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم منتخب ہوئی ہیں۔
جمعے کو ان مظاہرین نے نرسندگی ضلعے کی جیل پر دھاوا بولا جس کے بعد اس جیل سے اطلاعات کے مطابق سینکڑوں قید فرار ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ متعدد عینی شاہدین نے بی بی سی کو اس واقعے کی تصدیق بھی کی ہے۔
بنگلہ دیش کی اپوزیشن کی جماعت نیشنل پارٹی نے بھی احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔ ایکس پر ملک سے باہر بیٹھے ہوئے اس جماعت کے قائمقام چیئرمین طارق الرحمان نے عوام سے ان طلبہ کی حمایت کی اپیل کی ہے۔ احتجاج ختم کرنے سے متعلق ابھی تک مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔