بلوچ یکجہتی کمیٹی کی راجی مچی اور قومی تشکیل نو ۔ مراد محمد بلوچ

306

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی راجی مچی اور قومی تشکیل نو

تحریر: مراد محمد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

موجودہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا آدھا حصہ ہے، بلوچ قوم موجودہ بلوچستان میں چاروں طرف پھیل چکی ہے مغرب سے لیکر مشرق تک اور شمال سے لیکر جنوب تک.

ایک تو بلوچستان میں بھی آبادیاں ایک دوسرے سے نہایت دور ہیں جبکہ دوسری طرف اس وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی آبادی کے پاس پہنچنا بھی نہایت دشوار ہے کیونکہ بلوچستان میں سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور پر خار راستوں پر سفر کرنے کیلئے نہایت مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے.

دوسری طرف یہ قوم سندھ وپنجاب سمیت خیبر پختوانخواہ تک پھیل چکی ہے اس بکھری ہوئی قوم کو یکجاہ کرنے کیلئے وسیع ظرفی،برداشت اور نہایت صبر آزما جدوجہد کی ضرورت ہے اور یہ ایک دن یا ایک جلسے یا ایک پروگرام سے ممکن نہیں ہے.

خیبر پختونخواہ ، سندھ وپنجاب میں رہنے والے وہ بلوچ بھی اسی قوم کا حصہ ہیں جو اب دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں اور آباد ہیں لیکن ان میں سے اکثریت اب بیگانہ ہوچکی ہے اور اپنی قومی شناخت مکمل کھوچکی ہے یا کھونے کے قریب ہے کیونکہ ہم میں اور ان میں زمینی فرق کے علاوہ تعلقات کا بھی فقدان ہے.

انکی زبان سے لیکر ثقافت تک اب سندھی وپنجابی اور پشتون کے رنگ میں مکمل طورپر ڈھل چکی ہے یا پھر مکس ہوچکی ہے. مردم شماری میں سندھ و پنجاب کے بلوچوں کی شناخت کو تبدیل کرکے سندھی وپنجابی یا سرائیکی لکھا جاتاہے اور انہیں جبراً بلوچ سے دستبردار کیا جا چکا ہے یا کیا جارہاہے جو مقتدرہ کی دیرینہ خواب ہے.

کسی بھی قوم کی پہچان اسکی مادری زبان سے ہوتی ہے سندھ اور پنجاب میں کوئی ایسی تحریک یا ادارہ نہیں جو بلوچ قوم کو یہ احساس دلا سکے کہ انکی شناخت بلوچی زبان ہے، اگرچہ بہت سے بلوچی بولنےوالے اب بھی موجود ہیں مگر اکثریت اپنی اس قومی میراث سے محروم ہوچکی ہے یا کردی گئی ہے اور بلوچ کہنے میں عار محسوس کرتی ہے کیونکہ وہ سندھی یا پنجابی آبادی میں رہتی ہے اور ان پر سندھی وپنجابی زبانیں غالب ہوچکی ہیں. نفسیاتی طورپر بھی وہ بلوچی زبان کو بطور مادری زبان لینے کیلئے تیار نہیں ہیں.

ماضی میں تو پارلیمانی وغیر پارلیمانی سیاسی پارٹیوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے اور اسکی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اسکی وجوہات کیا ہیں علم نہیں مگر ضرور وجوہات ہونگے.

بلوچستان میں اس وقت شدت کیساتھ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک چل رہی ہے اس تحریک کا آغاز تب ہوا جب تربت میں سانحہ ڈنک پیش آیا جہاں ملک ناز نامیں شیر زال خاتون نے جام شہادت نوش کی اور برمش اسکی بیٹی نے گولیاں برداشت کیں اور زخمی ہوئیں تب برمش یکجہتی کمیٹی کے نام سے تحریک چلی اور پھر رفتہ رفتہ بلوچ یکجہتی کمیٹی وجود میں آیا.

حالیہ دنوں اس تحریک نے تب زور پکڑ لیا جب تربت میں سی ٹی ڈی نے بالاچ مولابخش نامی نوجوان کو بے دردی سے مارا اور اسکے لواحقین نے تربت میں دھرنا دیا اس واقعے کے بعد تربت سمیت مکران بھر اور پورے بلوچستان میں تحریک پھیل گئی بالاچ کے لواحقین نے جب بالاچ کو تربت میں دفنایا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ سے ڈیرہ غازی خان اور پھر اسلام آباد تک مارچ کیا اس مارچ کو عوام کی جانب شدید پزیرائی ملی مگر اسکی خاصیت یہ تھی کہ اسمیں پہلی مرتبہ کوہ سلیمان کے بلوچوں کو بھی شامل کرکے بلوچ ہونے کا احساس دلایا گیا اگر چہ باقیوں کی بنسبت کوہ سلیمان کے بلوچ اپنی شناخت اور پہچان قائم کر چکے ہیں مگر اب بھی ایسے لوگ ہونگے جو بیگانہ ہو چکے ہیں.

بلوچ یکجہتی کمیٹی شروع میں ایک عوامی تحریک تھہ لیکن اب اسکی آرگنائزنگ باڈی تشکیل دی گئی ہے جسکے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہیں جبکہ دیگر میں سابقہ بلوچ رائٹس کونسل کے سربراہ عبدالوہاب بلوچ ودیگر شامل ہیں.

اس تحریک کا مرکز اس وقت مکران اور جھالاوان ڈویژن و رخشان اور کرچی ہیں لیکن بلوچ اس وقت صرف ان مذکورہ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اندرون سندھ وپنجاب اور خیبرپختونخواہ کے علاوہ ابھی تک بلوچستان کے نصیرآباد ریجن اور سبی و جعفر آباد تک بھی اس تحریک کی پہنچ نہیں ہوسکی ہے.

28جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب گوادر میں راجی مچی کے انعقاد کا اعلان کیا گیاہے،اس وقت کوئٹہ سمیت مستونگ خضدار ودیگر علاقوں میں اس پروگرام کے حوالے سے مہم زور و شور سے جاری ہے راجی مچی کے حوالے پمفلٹنگ سمیت وال چاکنگ بھی کی جارہی ہے،اس پروگرام کو قومی تشکیل نو کا نام دیا جارہاہے اور اسے راجی مچی کانام دیا گیا ہے توقع ہیکہ یہ پروگرام گوادر میں اپنی نوعیت کا بہت بڑا پروگرام ہوگا کیونکہ گوادر سمیت مکران کے لوگ شدید مشکلات کاشکار ہیں،چیک پوسٹوں کی کثرت، باڈری کاروبار پر قدغن، جبری گمشدگیاں، سمندر میں ٹرالرنگ اور ماہیگیری کے شعبہ کی خستہ حالی، سڑک حادثات میں اموات کی کثرت،سمیت دیگر مشکلات ہیں جن کو لیکر تحریک چلائی جائے تو کامیاب ہوگا،ماضی قریب میں مولانا ھدایت الرحمن بلوچ بھی چیک پوسٹ سمیت باڈری وسمندری کاروبار پر پابندیوں کے حوالے تحریک چلا چکےہیں انہوں نے مکران کی تاریخ کا بہت بڑا اجتماع منعقد کیا تھا لیکن وہ اپنے منزل تک پہنچنے کے بعد ایک عام پارلیمانی بن گئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی ایک وسیع پروگرام کے تحت راجی مچی کرنے جارہی ہے اسکے قائدین کو سوچنا چاہیے تھاکہ راجی مچی میں سندھ وپنجاب اور پختونخواہ کے بلوچ اگر شامل نہیں کیے جاسکتے تو ٹھیک لیکن ابھی تک نصیر آباد ودیگر علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور انہیں بالکل ترک کرکے انکے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے.

نصیر آباد ریجن کے مشکلات بہت زیادہ ہیں،جاگیردارانہ نظام،تعلیمی مشکلات،اور دیگر بنیادی ضروریات سمیت وہاں کے لوگوں کو بلوچ وبلوچستان سے مکمل طورپر لاتعلق رکھا گیاہے مگر یہ کام بلوچ یکجہتی کرسکتی ہے کہ وہ ان علاقوں میں جاتے اور انکے مسائل کوبھی اس راجی مچی کے چارٹر میں شامل کرتے اور اس ریجن کے لوگوں کوبھی اپنا ہونے کا احساس دلاتے تب راجی مچی کی رونقوں میں مزید چار چاند لگ جاتی.

نصیر آباد ریجن ودیگر علاقے سندھ سے قربت کی وجہ سے وہاں کے زمینداروں کے مسائل ہیں،آبی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہے،جبکہ جاگیردارانہ نظام کیلئے جنت نظیر بنادی گئی ہے اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کو اپنا ہدف نصیر آباد ریجن،کراچی،اندرون سندھ،اور پنجاب وخیبر پختونخواہ کے بلوچوں کی طرف کرنا ہوگا کیونکہ وہاں کوئی پارلیمانی پارٹی جانہیں سکتی اور اسکی ضرورت کو بھی محسوس نہیں کرتا یہ کام بلوچ یکجہتی کے فورم سے ہونا چاہیئے۔

نصیر آباد ریجن میں سندھی زبان اور سندھی کلچر کے اثرات بہت گہرے ہوچکے ہیں،یہ خطہ بلوچستان ہے لیکن یہاں ایک ایسا نظام قائم ہے جہاں لوگ سرمایہ دار اور سرداریت کی عفریت اور قہر کا سامنا کر رہے ہیں گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں ہم نے کبھی نہیں دیکھاہے کہ اس ریجن میں نیشنلزم سیاست کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی سامنے آیا ہے اور وہاں کے لوگوں کو سرداریت اور سرمایہ دار وجاگیر دارانہ نظام کی چنگل سے نجات دلانے اور قومی تحریک وتشکیل میں شامل کرنے کیلئے کوششیں کی گئی ہیں.

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب گوادر میں راجی مچی کا انعقاد نہایت بہترین عمل ہے گوادر پر دشمنوں کی گہری نظریں جمی ہیں ہر سال گوادر ڈے کے نام پر خاص دن مناکر یہ احساس دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گوادر کو ہم نے عمان کی حاکم سے خریدا ہے اگرچہ یہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے لیکن گوادر مزاحمت کا مرکز رہا ہے یہاں باڑ لگا نے کا منصوبہ بھی ریاست کی دیرینہ خواب ہے جو ابتک تشنہ تعمیر ہے لیکن بلوچستان کا نصیر آباد ریجن بھی ایسا خطہ ہے جہاں زبان سے لیکر ثقافت تک زمین سے لیکر زندگی تک سب کچھ چھن لیا گیا ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سنجیدہ رہنماؤں سے گزارش ہیکہ وہ نصیر آباد ودیگر بلوچوں کیساتھ ساتھ سندھ وپنجاب میں پروگرامات کا انعقاد کریں اور وہاں کے رہنے والے بلوچوں کو بھی ساتھ ملانے کیلئے سوچ و بچار کریں اگر گوادر مچی سے پہلے ان علاقوں کا دورہ ہو سکے اور انکے مطالبات بھی شامل کیے جاسکیں تب راجی مچی مزید خوبصورت ہوگی.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔