بلوچ لاپتہ نہیں ریاستی تحویل میں ہیں، گوادر میں ریلی و جلسہ

218

کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نکلنے والی پرامن ریلی پر تشدد و خواتین کی بے حرمتی کے خلاف گوادر میں حق دو تحریک کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی۔

ریلی جاوید کمپلیکس سے شروع ہوا جس میں خواتین اور بچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، ریلی میں لوگوں نے جبری گمشدگی کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔

ریلی نے مکی مسجد کے مقام پر جاکر جلسے کی شکل اختیار کرلی جہاں رہنماوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

رہنماؤں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا اسلام کے نام پر بننے والی ریاست اپنے عوام کی عزت اور آبرو سے کھیل رہی ہے۔ یہ کیسے اسلام کے نام پر بننے والی ریاست ہے جہاں ظلم کے خلاف بولنے والے لوگ لاپتہ ہوجاتے ہیں اور انکی مسخ شدہ لاش ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست بلوچستان میں جو کھیل کھیل رہی ہے جس سے ریاست مستحکم نہیں رہ سکتی۔

مقررین کا کہنا تھا کہا جاتا ہے بلوچ لاپتہ ہیں جبری گمشدگی کے شکار ہیں بلوچ لاپتہ نہیں ریاستی اغواء کاری کے شکار ہیں اسے آپ لاپتہ نہیں کہہ سکتے۔ لاپتہ اسے کہا جاتا ہے جو کہیں جاکر لاپتہ ہوتا ہے مگر ہمیں پتہ ہے ہمارے لوگوں ریاستی تحویل میں ہیں اسے آپ لاپتہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنتے بھی لوگ ریاستی تحویل میں ہیں وہ سب بیگناہ ہیں، کیونکہ ایک ہوتا ہے ملزم اور مجرم ہے ملزم پہ الزام ہوتا ہے جبکہ مجرم وہ ہوتا ہے جس پہ جرم ثابت ہوتا ہے جبکہ لواحقین تو یہی کہہ رہے ہیں اگر کسی کوئی الزام ہے اس کو اپنے عدالتوں میں پیش کرکے ثابت کریں۔

انہوں نے ریاست کی آنکھیں بلوچ ساحل اور وسائل پہ ٹکی ہوئی ہے۔ مگر جب تک ایک بلوچ زندہ ہے آپ کی یہ خواب پورا نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عزت و ناموس پر آتھ ڈالنے کے بعد یہ توقع رکھنا کے کوئی زندہ باد کہے گا۔ جو زندہ باد کہے اس پر بھی لعنت ہے۔

مقررین نے کہا برطانیہ نے جو پالیسی “تقسیم کرو اور حکومت کرو” ان پہ استعمال کی ہے اب وہ یہی پالیسی ہم پہ استعمال کررہے ہیں ہمارے لئے کچھ نہیں بچا ہے اتحاد کے علاوہ ہم تمام بلوچوں کو کہنا چاہتے ہیں ایک ہوجائیں۔

انہوں نے کہا ریاست بزور طاقت ہمیں پرتشدد ہونے کی سازش کررہا ہے مگر ہمیں پرامن رہنا ہے۔

دوسری جانب پسنی میں بھی گذشتہ دنوں کوئٹہ میں مظاہرین پر پولیس کی لاٹھی چارج، شیلنگ اور گرفتاریوں کے خلاف ایک ریلی نکالی گئی۔

ریلی کے شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے لاپتہ افراد کی بازیابی اور کوئٹہ پولیس کے خلاف نعرے درج تھے۔ ریلی پسنی پریس کلب کے سامنے سے شروع ہوئی اور مختلف شاہراؤں پر گشت کرتے ہوئے واپس پسنی پریس کلب کے سامنے اختتام پذیر ہوا۔

آخر میں ریلی کے شرکاء نے اہلیان پسنی کو 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہونے والے ” راجی مچی” میں بھرپور شرکت کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔