بلوچ راجی مچی – ٹی بی پی اداریہ

260

بلوچ راجی مچی

ٹی بی پی اداریہ

جنگ زدہ بلوچستان میں سیاست پر غیر اعلانیہ پابندی ہے اور ریاست نے بلوچ قومی سیاست کے تمام راستے جبرو تشدد سےمسدود کردیئے ہیں لیکن حالیہ سالوں میں جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف بلوچستان میں نوجوانوں کی قیادت میں سیاسی تحریکوں کی ایک نئی لہر ابھری ہے، جس کی ایک بلوچ یکجہتی کمیٹی ہے۔ جو کل گوادر میں راجی مچی کے نام سے ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرنے والی ہے۔

الزام عائد کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے جبری الحاق سے لیکر موجودہ وقت تک بلوچستان میں پر امن سیاسی تحریکوں کو طاقت سے کچلنے کی پالیسی نافذ رہی ہے۔ آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ قومی حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں، سیاسی اجتماعات پر پابندیاں لگی ہیں، منتخب حکومتوں کو ختم کیا گیا ہے اور نیشنل عوامی پارٹی جیسے قومی جماعتیں کالعدم قرار دیئے گئے ہیں لیکن بلوچ تحریکوں کو ختم کرنے میں ریاست ہمیشہ ناکام رہی ہے۔

ریاست نے جو حربے بلوچ قومی تحریک کی انسداد کے لئے اپنائے تھے، وہی حربے بلوچ راجی مچی اور موجودہ بلوچ مزاحمتی سیاست کو روکنے کے لیے اپنائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے فیصلہ ساز حلقے اپنے تاریخی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے اِنہی پالیسیوں کو دہرا رہے ہیں۔ ریاست کے مقتدر قوتیں یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جبر ؤ تشدد سے قومی تحریکوں کو وقتی طور پر دبایا جاسکتا ہے لیکن اِن تحریکوں کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔

ریاستی جبر اور سیاست پر غیر اعلانیہ پابندی کے سبب بلوچستان سیاسی جمود کا شکار تھا لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی کی حالیہ سیاسی ابھار نے بلوچ سماج کو سیاسی طور پر ایک بار پھر متحرک کردیا ہے اور اداروں سے بالاتر ہوکر ریاستی جبر اور چین کی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف اجتماعی جدوجہد کے لئے بلوچ قوم کو یکجاہ کیا ہے۔ بلوچ راجی مچی کی بلوچستان کی مزاحمتی سیاست پر دور رَس اثرات مرتب ہونگے اور بعید نہیں کہ راجی مچی بلوچ قومی سیاست کو دوبارہ منظم ؤ مزید متحرک کرنے کا سبب بنے۔

دوسری جانب یہ قیاسات و خدشات موجود ہیں کہ ریاست اس راجی مچی کو طاقت کے ذریعے روکنے کی کوشش کرے، کسی بھی ممکنہ طاقت کے استعمال کی صورت میں، حالات انتہائی کشیدگی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں، جو بلوچ مسلح تنظیموں کے ان دلائل کو اثبات فراہم کریگی کہ انہوں نے بندوق پر امن سیاست کے دروازے مسدود ہونے کی وجہ سے اٹھائی ہے۔