بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر اسلام آباد میں احتجاجی ریلی نکالی گئی اور احتجاجی مظاہرہ ریکارڈ کرایا گیا-
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے راجی مچی پر پولیس تشدد، حراستوں اور قافلوں پر پاکستانی فورسز کے تشدد کے خلاف اسلام میں ریلی نکالی گئی اور احتجاجی مظاہرہ رکارڈ کرایا گیا-
اسلام آباد میں احتجاج میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان، انسانی حقوق کے ارکان سمیت طلباء و طالبات بڑی تعداد میں شریک ہوئے-
اس دؤران بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی، مظاہرین نے ریاستی سنسرشپ بلوچستان میں میڈیا اور نیٹ ورک بلیک آؤٹ اور بلوچ قوم کی نسل کشی، اور بلوچ قومی اجتماع پر ریاستی کریک ڈاؤن کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
مظاہرین نے بلوچستان بھر میں راجی مچی کے دؤران متعدد مظاہرین کی جبری گمشدگیوں قافلوں پر حملوں اور اور ہلاکتوں کو اجاگر کیا۔
مظاہرین کا اس موقع پر کہنا تھا کہ صوبائی کھٹ پتلی حکومت کے احکامات پر جو مظالم بلوچ قومی اجتماع میں شرکاء پر ڈھائے گئے اور منتظمین سمیت بی وائی سی کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور انھیں پر امن احتجاج سے روکا گیا، ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے-
انہوں نے کہا کہ پرامن مظاہرین جن میں خواتین بچے شریک تھیں پانچ روز سے مسلسل ریاستی تشدد کا سامنا کررہے ہیں جس کے خلاف اسلام آباد سمیت بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے-
احتجاجی مظاہرے میں شریک انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ گذشتہ چھ روز سے ہم بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں ایک پرامن راجی مچی پر ریاست نے جس طرح طاقت کا استعمال کیا اور سویلینز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست خود بلوچوں کے پرامن مزاحمت سے خوفزدہ ہے-
انسانی حقوق کے کارکن کا کہنا تھا کہ کھٹ پتلی وزراء نے جس طریقے سے اس پرامن مظاہرے کو پرتشدد بنانے کی کوشش کی اسے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے ناکام بنایا اور ریاست کی بلوچستان میں جاری پرتشدد رویے کو دنیاء کے سامنے آجاگر کیا-
واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر جلسہ کے شرکاء پر تشدد اور ریاستی کریک ڈآؤن کے خلاف بلوچستان بھر میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مختلف مقامات پر جلسے کے شرکاء دھرنے دئے ہوئے ہیں-