بلوچ تحریک کا دانش ورانہ تنقیدی جائزہ
تحریر: ذوالفقار علی زلفی
دی بلوچستان پوسٹ
بعض دوستوں کا اصرار ہے بلوچ قومی تحریک کا دانش ورانہ انداز میں تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے ـ بات تو درست ہے مگر “دانش ورانہ تنقیدی جائزے” کے لئے دانش ور کا ہونا بھی ضروری ہے ـ اس وقت ہمارے پاس مزاحمتی دانش ور کون ہے؟ ـ مزاحمتی دانش ور سے مراد فرانز فینن، ایڈورڈ سعید، ارون دھتی رائے یا نوم چومسکی جیسے افراد سے ہے جو معروض کا گہرا تنقیدی مطالعہ کرکے اپنے مشاہدے کا نچوڑ پیش کرکے مزاحمت کاروں کو درست راستہ دکھاتے ہیں ـ
بلوچ قومی تحریک کے آخری مزاحمتی دانش ور جناب صورت خان مری تھے، ان کی گرتی صحت کے بعد یہ خلا تاحال پر نہیں ہوسکا ہے ـ لکھاری ہمارے پاس درجنوں ہیں، یہ لکھاری اخباری کالم نگاروں جیسے ہیں جو کسی مخصوص معاملے پر ایک رائے پیش کرتے ہیں دوسرے دن وہ معاملہ ختم رائے دھواں ـ بلوچ معروض کا تنقیدی جائزہ، مسلح و غیر مسلح تنظیموں کی پالیسیوں و فیصلوں کے منفی و مثبت اثرات اور پنجابی نوآبادکار اور اس کے عالمی سرپرستوں کی پالیسیوں کے عمیق تجزیے جس علم اور گہرے دانش ورانہ مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں، اس سے ہم کاملاً محروم ہیں ـ
ہم جیسے چار کتابی سطحی بات کرسکتے ہیں مگر گہرائی ہمارے بس سے باہر ہے ـ ہم نوآبادکار کو گالیاں دے کر مسلح سرمچاروں اور مزاحمتی سیاسی کارکنان کی تعریف و توصیف تک محدود ہیں ـ تھوڑا سا آگے بڑھیں تو 1948 کی پہلی مزاحمت کی رٹی رٹائی تاریخ سے شروع کرکے آج تک آکر بلوچ کو مظلومیت کا سرٹیفکٹ تھما دیتے ہیں، اس درمیان زیب داستاں کے لئے جبری گم شدگی اور فورسز کے تشدد پر چند جملوں کا اضافہ کردیتے ہیں ـ بس قصہ ختم ـ
چند ایک ایسے ہیں جو تنقید اور تضحیک میں فرق کرنے سے قاصر ہیں ـ یہ یا تو پارلیمانی قوم پرستوں کی تضحیک کو تنقید سمجھ لیتے ہیں یا تحریک آزادی سے منسلک چند تنظیموں کے مخصوص اعمال پر گرفت کرکے خود کو نقاد ثابت کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کرتے ہیں ـ
بلوچ لکھاریوں کو یہ روش بدلنی ہوگی ـ سطحی اور جذباتی تحریروں سے تحریکی ساتھیوں کے دل تو گرمائے جاسکتے ہیں مگر صورت حال کے درست اداراک کے لئے مثبت بحث کی راہ نہیں نکلتی ـ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔