بلوچستان کی آواز، استاد میر احمد بلوچ ۔ سنگت شیرباز بلوچ

513

بلوچستان کی آواز، استاد میر احمد بلوچ

تحریر: سنگت شیرباز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں بہت سارے فنکار ہیں، بہت زیادہ اشعار لکھنے والے ہیں اور اسی طرح ہر فنکار کے اپنے چاہنے والے ہوتے ہیں ہر زبان کے فنکار ہوتے ہیں اور ہر کسی کا اپنا پسندیدہ فنکار ہوتا ہے جیسے سندھی کو سندھی فنکار پشتون کو پشتون فنکار بلوچ کو بلوچی زبان کے فنکار پسند ہوتے ہیں اور اسی طرح تمام سارے فنکاروں میں پھر ایک فنکار انسان کا پسندیدہ فنکار بھی ہوتا ہے جسے وہ زیادہ یا ہر وقت ہر جگہ سنتا رہتا ہے۔

آج میں ایک ایسے فنکار کے بارے میں لکھنے جارہا ہوں جسے صرف بلوچستان نہیں بلکہ بلوچستان سے باہر بھی لوگ سنتے ہیں اور پسند کرتے ہیں جہاں بلوچ قوم آباد ہوتی ہیں اکثر پھٹان ہو یا سندھی وہ بھی اس کے گانے سنتے ہیں اس کے گانے کو اسل لئے بھی لوگ بہت سنتے ہیں کہ اسکی آواز میں ایک ایسی مٹھاس اور قدرت نے اُسے ایک ایسی خوبصورت آواز عطا کی ہے کہ اس کے ساتھ ہر قسم کے گانے کو اُسی انداز میں گانا اور شاعر کے اشعار کو خوبصورت انداز میں بیان کرنا وہ جب کبھی اپنا آٸی ڈی پر اپنے نئے البم کا پیغام دیتا ہے تو لوگ پاگلوں جیسے اس کے نئے گانوں کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب نئے گانے ریلیز ہونگے ویسے تو بلوچستان میں بہت سارے فنکار ہوتے ہیں اچھے اچھے اشعار بولتے ہیں اور آواز بھی ان کی اچھی ہوتی ہیں اور اسی طرح ان کے چاہنے والے بھی ہوتے ہیں۔

آج جس شخص کے بارے میں مَیں لکھنے جارہا ہوں اسکا نام میران بخش عرف ”استاد میر احمد بلوچ “ ہے جسے لوگ
” بلبل بلوچستان “ بھی کہتے ہیں۔

یہ وہ ہستی ہے جوکہ اپنے عرف نام سے ہی مشہور ہوگیا اور آج تک لوگ اسے اُس کے عرف نام سے ہی جانتے ہیں میرے خیال سے بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جوکہ اسے اس کے اصل نام سے جانتے ہوں گے۔ استاد میر احمد بلوچ جوکہ لہڑی قبیلہ اور مستونگ شہر سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ مستونگ شہر جسے بہادروں کا شہر کہا جاتا ہے جس نے شہید سنگت ثناء، شکور جان، حکیم جان ، اشرف جان ، فقیر عاجز جیسے ہزاروں بہادر جنم دیئے ہیں۔

استاد میر احمد بلوچ تقریباً سنہ 1998 سے اپنے فَن کا مظاہرہ کررہا ہے اور آج تک جاری ہے جس نے اپنے فَن سے ہی لوگوں کے دلوں میں انقلاب برپا کیا لوگوں کے دلوں میں اپنے محبت کو دفن کیا جب بلوچستان میں بلوچی دیوان ہوتے تو بہت لوگ آتے تھے بلوچی دیوان کا آغاز بلوچ قومی ترانہ ” چکے بلوچانی ما چکے بلوچانی “ سے استاد میر جان اپنے خوبصورت آواز میں کیا کرتا تھا اور اکثر دیوان میں اس کے اپنے فَن کے استاد کبیر جان یا کبھی کبھار عارف بگٹی ان کے ساتھ ہوتے، دونوں جوکہ اپنے وطن بلوچستان اپنے غازیوں یا اپنے شہیدوں کے داستانیں بیان کرتے تھے تو سارا رات انقلابی ماحول ہوتا تھا لوگ خوشیاں مناتے تھے بلوچی چھاپ ہوتا تھا لوگوں کا دل نہیں چاہتا کہ یہ دیوان ختم ہو۔

استاد میر احمد جوکہ ہر وقت اپنے وطن کے شہیدوں اور اپنے وطن کے شہزادوں کو اپنے خوبصورت آواز میں بیان کرتا ہے۔ استاد میر احمد نے تقریباً ساتھ زبانوں میں اپنے فَن کا مظاہرہ کیا ہے جیسے کہ سندھی ، فارسی ، سراٸیکی ، انگریزی ،بلوچی ، براہوٸی، پشتو زبانوں میں اشعار بولے ہیں۔

استاد فن شناسی کے ساتھ ساتھ فرض شناس اور قوم سے محبت کرنے والے عظیم فنکاروں میں شمار ہوتا ہے، اگر میں بلوچ قوم کی بات کروں محترم استاد میر احمد بلوچ ہماری قوم کی وہ فرض شناس فرزند ہے جنہوں نے نا سیاست کی غرض سے گھر بار چھوڑ دی نا بندوق اٹھا کر باغی رہا۔

بلکہ ایسے عظیم ہستیوں نے اپنی زبان کی اہمیت کو سمجھ کر ریاست کو پیغام دیا کہ اگر آپ کے نظروں میں اپنے قومی ہیروں کی قربانی اور بہادری کو بیان کرنا ایک جرم ہے تو میں اس جرم کو بار بار کرتا رہوں گا اگر آپ (دشمن) کی نظروں سے سرزمین اور اس کے عاشق شہدا کی خاطر گیت گانا کوئی غداری ہے تو میں ہزار بار اس کو سر آنکھوں قبول کرتا ہوں، لیکن میں اپنے فرض سے غافلیت کا شکار نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ میرا فرض ہے اگر میں بندوق اٹھا نہیں سکتا تو بول سکتا ہوں گیت گاتا ہوں اپنی قومی شہدا اور انکے مشن کو اپنی سریلی آواز سے نمایاں کر سکتا ہوں تاکہ اپنی قوم اور بلخصوص نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو کار آمد بنا کر انہیں پیغام دے تو سکتا ہوں۔

جب دشمن نے دیکھا یہ تو ہماری تشدد نما سوچ سے بلکل دور ہے تو انہوں نے قومی فنکار کی گھر میں آکر کئی بار بچوں اور خواتین کو زد و خوف کیا بار بار استاد کو اپنے ہاں بلانے کی ضد کی تاکہ ہمارے ہاں سجدہ ریز رہے ، لیکن اس شخص نے سرزمین سے وہ عشق کیا تھا انہیں سجدہ ریز کرنے والے خود مایوس رہے استاد نے بلاخر گھر بار چھوڑ کر اسکرین سے خود کو غائب کر دیا، لیکن اپنی ذمہ داریوں کو بہتر سے بہتر کارگر ثابت کرنے پر ڈٹے رہے اپنی دل جیتنے والی آواز کو خاموش ہونے نہیں دیا۔

حتیٰ کہ استاد کی جوانسال بیٹے کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا تاکہ استاد اپنی آواز کو بلند کرنے سے باز رہے لیکن اس عاشق نے پھر بھی اپنی فن سے ہزاروں بلکہ لاکھوں دلوں کو جیت لیا، اور گاتا رہا آج بھی اپنی فن کے زریعے صاحب محترم استاد میر احمد اپنی فرائض کو بہتر سے بہتر شکل دے کر گیت گاتا ہے دعا ہے ایسے ہستیاں ہر وقت قوم کے درمیان اپنی خوبصورت اور سریلی آواز کے ساتھ سلامت رہے۔