بلوچ راجی مُچی (قومی اجتماع) کے قافلوں پر فائرنگ اور تشدد کے واقعات کے خلاف بلوچستان کے مختلف علاقوں مستونگ، ہنگول، گوادر، نوشکی اور کوئٹہ میں دھرنا جاری ہیں جبکہ گذشتہ شب کوئٹہ میں دھرنا مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔
گذشتہ رات تین بجے کے قریب پاکستانی فورسز نے کوئٹہ میں دھرنا مظاہرین پر دھاوا بول دیا، بیس افراد زیرحراست جن میں خواتین شامل ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دینے والے مظاہرین پر پولیس نے گذشتہ رات تین بجے کے قریب دھاوا بول دیا اس دوران مظاہرین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
پولیس نے بیس مظاہرین کو حراست میں لیا جن میں 12 خواتین بھی شامل ہیں۔ زیر حراست افراد کو مختلف تھانوں میں منتقل کردیا گیا۔
یہ احتجاجی دھرنا بلوچ راجی مُچی کے شرکاء پر فائرنگ اور تشدد کے واقعات کے خلاف دیا جارہا تھا۔
خیال رہے گذشتہ روز منعقد ہونے والے بلوچ راجی مُچی (قومی اجتماع) میں شرکت کیلئے بلوچستان بھر سے قافلوں نے گوادر کی طرف سفر کا آغاز کیا جنہیں بلوچستان بھر میں پاکستانی فورسز نے روک کر آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔
کوئٹہ سے فورسز کی متعدد رکاوٹیں عبور کرنے والے مرکزی قافلوں کو مستونگ میں نواب ہوٹل کے قریب فورسز کے براہ راست فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں 14 مظاہرین زخمی ہوگئے جن میں سے چار کی حالت تشویشناک ہیں۔
اسی طرح ہنگول میں کراچی سے آنے والے قافلوں کو فائرنگ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
جبکہ گوادر میں فورسز کی فائرنگ سے دو افراد جانبحق اور سات زخمی ہوگئے ہیں، شدید زخمیوں میں چار خواتین اور ایک بچہ شامل ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گذشتہ رات اعلان کیا کہ بلوچ راجی مُچی کو دھرنے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور یہ دھرنا گوادر پدی زر میں جاری رہے گا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم ریاست کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی نااہلی اور کم عقلی نے ایک دن کے راجی مچی کو اب دھرنے میں تبدیل کردیا ہے اور اس بلوچ راجی مچی دھرنے کے اس وقت دو مطالبات ہیں۔ایک ، جہاں جہاں ہمارے قافلوں کو زبردستی روکا گیا ہے، تمام راستوں کو کھول کر ہمارے قافلوں کو گوادر آنے دیا جائے ۔ دوسرا، ہمارے جتنے بھی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں انہیں 48 گھنٹوں کے اندر رہا کیا جائے وگرنہ یہ دھرنا غیر معینہ مدت کے لیے جاری رہے گا، اور ہم ان مطالبات پر ریاست کے ساتھ پدی زِر گوادر کے مقام پر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مزید کہا گیا کہ اگر ریاست نے اب بھی عقل اور ہوش سے کام لینے کے بجائے پرامن عوامی اجتماع کے مقابلے میں طاقت کا استعمال کیا تو گوادر سمیت پورے بلوچستان میں حالات ریاست کے کنٹرول سے مکمل طور پر نکل جائیں گے۔