ایک جانب ریاست بندوق لے کر سر پر کھڑی ہے تو دوسری جانب مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

420

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ گوادر میں نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کو بند کرکے پرامن شرکاء کے سروں پر بندوق رکھ کر میڈیا اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ حقیقت میں یہ ریاست اور اس کے تمام ادارے پرامن، آئینی اور قانونی جدوجہد کو نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اجازت دیتے ہیں۔

جس دن ہم نے بلوچ راجی مچی کا اعلان کیا تھا، اس دن سے ہم مسلسل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ بلوچ راجی مچی ایک روزہ پر امن قومی اجتماع ہے۔ لیکن شروع دن سے ہمیں ہراساں اور راجی مچی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شروع دنوں سے ہمیں راجی مچی کی جگہ تبدیل کرنے کے لیے بار بار ہراساں کیا گیا۔ ہماری موقف اور مقاصد کل بھی واضح تھیں اور آج بھی ہیں کہ بلوچ راجی مچی پرامن سیاسی عمل ہے۔ ہم جہاں چاہیں جس دن چاہیں پرامن سیاسی اجتماع منعقد کر سکتے ہیں اور یہ ہمارا آئینی و قانونی اور سیاسی حق ہے۔ ہم نے بلوچ راجی مچی کو گوادر میں منعقد کرنے کے لیے 28 جولائی سے دو ہفتے قبل ڈی سی گوادر کو این او سی کے لیے درخواست دی تھی اور ملاقات کر کے ڈی سی گوادر کو مسلسل مکمل یقین دہانی کروائی کہ بلوچ راجی مچی ایک روزہ قومی اجتماع ہے جو مکمل پرامن ہوگا اور ہم ایک گملا بھی نہ ٹوٹنے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ ہمارے مرکزی رہنماؤں نے ڈی سی گوادر کو واضح طور پر کہا تھا کہ ہم اس چیز کو تحریری طور پر آپ کو لکھ کر دیں گے۔ لیکن ریاست اس چیز کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی، بس ایک بات کا رٹا لگائے ہوئے تھی کہ گوادر حساس زون ہے۔ گوادر آپ کے لیے حساس یا روڈ زون ہوگا، ہمارے لیے یہ ہماری سرزمین ہے اور ہمیں اپنی ہی سرزمین پر پرامن طریقے سے عوامی اجتماع کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور پرامن عوامی اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت قانون اور آئین بھی دیتے ہیں۔

ہم شروع دن سے پریس کانفرنس، اخباری بیانات، ڈی سی گوادر اور کمشنر کوئٹہ کے ذریعے اس امر کو ریاست پر واضح کرتے رہے ہیں کہ ایک پرامن عوامی اجتماع پر طاقت استعمال کرنے کی غلطی نہ کریں۔ طاقت استعمال کرنے سے حالات نہ آپ کے کنٹرول میں ہوں گے اور نہ ہی ہمارے کنٹرول میں ہوں گے۔ طاقت استعمال کرنے سے آپ ایک عوامی اجتماع کو کسی بھی صورت روک نہیں سکتے اور ایسا کرنے کی غلطی بھی نہ کریں۔ لیکن فاشسٹ ذہنیت اور جنگی منافع خوروں کو سیاسی باتیں سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ میں آج ریاست سے پوچھتی ہوں، طاقت اور تشدد کے استعمال کے نتائج کیا ہوئے؟ کیا آپ کی طاقت، بندوق اور وحشت بلوچ راجی مچی کو روک پائی؟ کیا آپ کی طاقت کے استعمال سے بلوچ عوام ڈر گئی؟ البتہ اس کے برعکس طاقت کے استعمال نے ایک روزہ قومی اجتماع کو اب دھرنے میں تبدیل کر دیا اور پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ گزشتہ پانچ روز سے پورا بلوچستان بند ہے۔ گوادر سمیت پورا مکران غیر اعلانیہ کرفیو کے سبب مفلوج ہے، نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہیں اور اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود یہ ریاست اب بھی اپنے بچگانہ حرکتوں سے باز نہیں آ رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک پرامن عوامی اجتماع پر ریاست کے بے دریغ طاقت اور تشدد کے استعمال کے خلاف بلوچ راجی مچی کو ایک پرامن دھرنے میں منتقل کیا ہے۔ دھرنے کے دو انتہائی سادہ سے مطالبات ہیں: ایک، بلوچ راجی مچی کے جتنے بھی شرکاء گرفتار ہوئے یا جبری گمشدگیوں کے شکار کیے گئے انہیں فوری طور پر رہا کریں۔ دوسرا، بلوچستان کے تمام راستوں کو کھول دیا جائے، شاہراہوں پر کھڑی رکاوٹوں کو ختم کیا جائے۔ لیکن یہ ریاست ان مطالبات کو بھی تسلیم کرنے کے بجائے مسلسل طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ ہم نے دھرنا کا آغاز کرتے ہی اپنے مطالبات کا اعلان میڈیا میں کیا تھا لیکن ان مطالبات پر مذاکرات کرنے کے بجائے رات کو ایک ایم آئی کے اہلکار کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے روانہ کیا۔ جب یہ منصوبہ ناکام ہوا تو صبح آرمی اور ایف سی نے چاروں طرف سے دھرنا گاہ کو گھیر کر پرامن شرکاء پر حملہ کیا۔ اس کے علاوہ تلار چیک پوسٹ، کراچی، کوئٹہ میں گرفتاریوں اور طاقت کے استعمال کا سلسلہ جاری ہے اور بارکھان میں شرکاء پر ایف آئی آر درج کیے گئے ہیں۔ یہ اس ریاست کی سنجیدگی کا عالم ہے۔ ایک جانب طاقت اور تشدد کا بھرپور استعمال کر رہی ہے اور دوسری جانب میڈیا میں مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں اس ریاست کو واضح کرتی ہوں کہ بندوق سر پر رکھ کر کسی بھی صورت مذاکرات نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو سب سے پہلے طاقت اور تشدد کے استعمال کو فوری طور پر روکا جائے۔ جبکہ اس وقت گوادر پدی زر (میرین ڈرائیو) پر ہمارا دھرنا جاری ہے اور ہمارے دونوں مطالبات آپ کے سامنے موجود ہیں۔ اگر ریاست سنجیدہ ہے تو پدی زر جاری دھرنے میں آئے اور ہمارے ساتھ بات کرے۔ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ طاقت اور تشدد کے استعمال سے ہماری جدوجہد کو ختم کر سکتی ہے تو بیشک کریں اور اپنی فوری طاقت کو آزمائیں۔ ہم کسی صورت طاقت اور تشدد کے زور پر اپنی پرامن جدوجہد کو ختم نہیں کریں گے۔