اسرائیلی فوج کا 7 اکتوبر کو غلطیوں کا اعتراف، تاہم ٹینک حملے میں کسی اسرائیلی یرغمال کی ہلاکت سے انکار

98

اسرائیلی فوج نے گزشتہ برس سات اکتوبر کے روز حماس حملے کے دوران فوجی ردعمل میں خامیوں سے متعلق پہلی تفتیش کی رپورٹ جاری کی ہے۔ تاہم اس میں اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے 13 اسرائیلی یرغمالوں کی ہلاکت سے انکار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ بائیری نامی گاؤں میں ایک گھر میں یرغمالوں کو چھڑانے کے لیے جب ٹینک سے حملہ کیا گیا، تو اس سے یہ یرغمالی ہلاک نہیں ہوئے تھے، اور امکان یہی ہے کہ انہیں حماس کے جنگجوؤں نے ہلاک کیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے شہریوں کے تحفظ کے سلسلے میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف کیا جن میں بائیری میں حماس کے جنگجوؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے فورسز کی جانب سے منظم ہونے میں کافی وقت لگا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس علاقے میں پہلے دو گھنٹے میں لڑائی کے دوران کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام موجود نہیں تھا، جب کہ سیکیورٹی فورسز نے فوری لڑائی کے بجائے آبادی کے باہر جمع ہونے کو ترجیح دی۔

یہ آبادی غزہ سے چند کلومیٹر دور واقع ہے اور حماس حملے میں یہ آبادی کافی زیادہ متاثر ہوئی تھی۔ اس جگہ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، اور تیس کو یرغمالی بنایا گیا تھا۔

یہاں ایک واقعے میں حماس کی جانب سے ایک گھر میں کچھ افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا اور عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ایک اسرائیلی ٹینک سے اس گھر پر فائرنگ کی گئی اور خدشہ تھا کہ یہاں موجود 13 یرغمالی اسرائیلی فوج کے حملے میں مارے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ دستیاب معلومات کے معائنے کے بعد یہ تعین کیا گیا ہے کہ ٹینک کی گولہ باری سے کسی شہری کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ شارپنل سے باہر موجود دو اسرائیلی شہری زخمی ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں فوج کے ردعمل میں کئی خامیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ ان میں بائیری میں شہریوں کی حفاظت میں ناکامی کا ذکر کیا گیا، ساتھ ہی وہاں موجود شہریوں اور سولین ریپڈ رسپانس ٹیم کی بہادری کا اعتراف بھی کیا گیا۔

اسرائیلی فوج پر فلسطینیوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے کہ فوج کی داخلی تفتیش میں کم ہی کسی کو سزا دی جاتی ہے۔

فوج کے چیف ترجمان، ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے ایک ٹیلیویژن خطاب میں کہاکہ یہ کہنا میرے لیے تکلیف دہ اور مشکل ہے کہ” “فوج بائیری کے رہائشیوں کی حفاظت کے اپنے مشن میں ناکام رہی۔” “

بائیری کے شہریوں کی جانب سے اس رپورٹ پر ملا جلا ردعمل دیا گیا۔

مائیر زاربیو نامی رہائیشی کا، جن کا ایک بھائی اور ایک بہن سات اکتوبر کے حملے میں ہلاک ہوئے تھے کا کہنا تھا کہ فوج کی رپورٹ دھوکہ دہی ہے۔ ان کے بقول وہ اس رپورٹ اور اس بارے میں کسی بھی بات پر یقین نہیں رکھتے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ فوج کو ردعمل دینے میں چار گھنٹے کیوں لگے۔

اپنے بیان میں مقامی کمیونٹی نے رپورٹ کو تفصیلی قرار دیا اور کہا کہ انہیں اس سے آپریشن کی پیچیدگی کے بارے میں آگاہی ملی ہے۔

غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب فلسطینی علاقے پر حکومت کرنے والے عسکریت پسند گروپ حماس نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے کی قیادت کی جس میں اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق، تقریبأ 1,200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا گیا۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی فوجی کارروائی میں 38 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور88 ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔

غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ عالمی طور پر اسرائیل پر تنقید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔